خلیج فارس تعاون کونسل کی رکن ریاستوں نے اسرائیل سے اپنی وفاداری کا عملی اظھار کرتے ھوئے ریاض کے اجلاس میں ان ریاستوں میں
مقیم حزب اللہ سے وابستہ افراد کا مقابلہ کرنے کے لئے حکمت عملی منظور کی ہے ۔
واضح رھے کہ سعودی عرب سمیت تمام رکن ممالک نے نہ صرف آج تک عرب سرزمینوں پر قابض اسرائیل کی مذمت میں کوئی موقف نھيں اپنایا ہے بلکہ ان ریاستوں کے حکام کی طرف سے اسرائیل کو خراج عقیدت پیش کرنے کی خبریں عام طور پر ذرائع ابلاغ کی زینت بن کر دکھائی دیتی ہیں۔
خلیج فارس تعاون کونسل کی رکن ریاستوں کے نمائندوں نے (اتوار 15 ستمبر 2013 کو) سعودی دارالحکومت ریاض میں منعقدہ اجلاس میں حزب اللہ کے ان اراکین اور حامیوں کے تعاقب اور ان کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک نئی حکمت عملی وضع کی ہے۔
سیکورٹی معاملات میں تعاون کونسل کے نائب سیکریٹری جنرل "کرنل ھزاع مبارک الھاجری" نے کھا: کونسل کی رکن ریاستوں کی وزارت ھائے داخلہ کے نمائندوں نے اتوار کے اجلاس میں، حزب اللہ کے تجارتی اور مالیاتی امور "اور انسداد دھشت گردی!" کے لئے مقرر کردہ ٹیم کی تجاویز کو منظور کرلیا اور قرار پایا کہ یہ تجاویز آنے والے وزراء کے اجلاس کو بھی پیش کی جائیں گی۔
مذکورہ اھلکار نے کوئی اشارہ نھیں کیا کہ دنیا بھر میں دھشت گردی کے فروغ میں خلیج فارس تعاون کونسل کی رکن ریاستوں کا کردار، اسرائیل اور امریکہ کے برابر نہ ھو تو کم بھی نھیں ہے اور شام اور عراق نیز پاکستان اور بعض دوسرے ممالک میں تو ان کا رسوائی کی حدود بھی پارکرگیا ہے جبکہ حال ھی میں بندر بن سلطان نے روسی صدر سے علی الاعلان کھا ہے کہ اگر وہ شام میں سعودی موقف کی حمایت کرے تو سعودی عرب موسم سرما کے اولمپکس میں دھشت گردانہ حملے نہ ھونے کی ضمانت دینے کے لئے تیار ہے۔
بھر حال کرنل ھزاع نے کھا کہ ان تجاویز کا تعلق حزب اللہ کے حامیوں کے ویزوں اور اقامت اور مالی و تجارتی معاملات سے ہے
اس سے قبل جولائی 2013 کے آغاز پر خلیج فارس تعاون کونسل کی وزارت ھائے داخلہ کا پھلا اجلاس رکن ریاستوں میں حزب اللہ کے مالیاتی اور تجارتی امور کی نگرانی کے لئے ایک ٹیم کی تشکیل کی غرض سے منعقد ھوا تھا جس کا مقصد عرب سرزمینوں اور مسلمانوں کے قبلہ اول مسجد الاقصی پر قابض صھیونی ریاست کی خوشنودی حاصل کرنے کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔
تاھم کویت کے نائب وزیر داخلہ "غازی العمر" نے کھا ہے کہ ان کا ملک رکن ممالک میں حزب اللہ کے مفادات کے خلاف کسی قسم کے اقدام کا حصہ نھیں ہے۔
العمر نے الشرق الاوسط کو انٹرویو دیتے ھوئے زور دیا کہ ان کا ملک سیکورٹی ٹیم کی تجاویز کی شکل و ترتیب کے خلاف ہے لیکن اس نے اپنی اس مخالفت کا اظھار نھیں کیا ہے۔
العمر نے کھا: خلیج فارس تعاون کونسل کی رکن ریاستیں شام کے خلاف ممکنہ فوجی افدام میں سیکورٹی حوالے سے شریک ھونگی کیونکہ ـ بقول ان کے ـ یہ ریاستیں امن و استحکام کے لئے کوشش کرتے ہیں اور اس اقدام میں ھر ریاست کی شرکت اس کے اپنے وسائل تک محدود ھوگی۔
العمر نے علاقے کی صورت حال کو نامناسب قرار دیا اور اعتراف کرتے ھوئے کھا: مشکل یہ ہے کہ ھم (خلیج فارس تعاون کونسل کی رکن ریاستیں) خطے کے طاقتور کھلاڑی نھیں ہیں اور ھم سے زيادہ طاقتور ملک ھمارے خطے میں موجود ہے۔