توفیق علاوی کو نیا وزیراعظم مقرر کیے جانے کے باوجود عراق کی سیاسی جماعتوں اور دھڑوں کے درمیان اس حوالے سے اختلافات ختم نھیں ھوسکے ہیں۔
عراق کی الصدر تحریک نے توفیق علاوی کی بھرپور حمایت اور اعلان کرتے ھوئے عوام سے مظاھرے ختم کرنے کی اپیل کی ہے۔
الصدر تحریک کے سربراہ مقتدی الصدر نے اپنے ایک ٹوئٹ میں ملک کے تمام جنوبی صوبوں میں اسکولوں اور تعلیمی اداروں کو کھولے جانے کی اپیل اور سڑکوں کو بند کرنے نیز بدامنی پھیلانے کی مخالفت کی ہے۔
نیشنل وزڈم پارٹی کے بعض رھنماؤں نے کھا ہے کہ نہ عادل عبدالمھدی کے انتخاب میں ان کی جماعت کا کوئی کردار تھا اور نہ ھی محمد توفیق علاوی کے انتخاب میں کوئی کردار ادا کیا ہے تاھم انھیں وزیراعظم مقرر کردیا گیا ہے تو ھم اس فیصلے کو قبول کرتے ہیں۔
سابق وزیراعظم نوری المالکی کی قیادت والے اتحاد حکومت قانون نے بھی وزیراعظم توفیق علاوی کے انتخاب کے بارے میں تقریبا ایسا ھی موقف اپنایا ہے۔اگرچہ کھا جارھا ہے کہ الفتح اور سائرون جیسے پارلیمانی دھڑوں نے وزیراعظم محمد توفیق علاوی کی نامزدگی میں اھم کردار ادا کیا ہے تاھم مذکورہ دھڑوں سے وابستہ بعض جماعتوں نے وزیراعظم علاوی کی حمایت کو وعدوں کی تکمیل سے مشروط کردیا ہے۔
الفتح الائنس سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمنٹ حامد الموسوی نے کہا ہے کہ وزیراعظم توفیق علاوی نے غیر جانبدار وزرا کے انتخاب سمیت قوم سے جو وعدے کیے ہیں انھیں پورا نھیں کیا تو ھم اپنی حمایت واپس لے لیں گے۔
کرد جماعتوں کی جانب سے جن میں موومنٹ فار چینج، کردستان پیٹریاٹک یونین، کردستان ڈیموکریٹک پارٹی اور نئی نسل پارٹی جیسی جماعتیں شامل ہیں تاحال توفیق علاوی کو وزیراعظم نامزد کیے جانے کے بارے میں کوئی واضح موقف سامنے نھیں آیا ہے تاھم کردستان اتحاد سے تعلق رکھنے والے ایک رکن پارلیمنٹ امین بکر نے ان کے انتخاب کو مثبت پیشرفت قرار دیا ہے۔
امین بکر کا کھنا تھا کہ کرد جماعتیں توفیق علاوی کے بارے میں مثبت رائے رکھتی ہیں اور ھمیں امید ہے کہ وہ اگلے مراحل کامیابی کے ساتھ طے کرلیں گے۔
الوفاق الوطنی پارٹی کے سربراہ اور وزیراعظم توفیق علاوی کے چچازاد بھائی ایاد علاوی نے توفیق علاوی کے انتخاب کو مسلط کردہ فیصلہ قرار دیا ہے۔
انھوں نے کھا ہے کہ نئے وزیراعظم کا انتخاب ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے سے کیا جانا چاھیے۔دوسری جانب عراق کے جنوبی، مشرقی اور مرکزی شھروں میں وزیراعظم توفیق علاوی کی نامزدگی کے بعد بھی مظاھرے کیے جا رھے ہیں۔
اتوار کی صبح ھونے والے مظاھروں میں شریک لوگوں نے ایسے بینر اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر ایک غیر جانبدار اور غیر سیاسی شخص کو ملک کا وزیراعظم بنائے جانے کے مطالبات درج تھے۔
نجف اشرف میں نصب کیے گئے ایک بینر پر جلی حروف میں لکھا تھا کہ توفیق علاوی کو عوام کے حکم سے برطرف کردیا گیا ہے۔دوسری جانب وزیراعظم توفیق علاوی نے اپنی نامزدگی کے فورا بعد مظاھرین کے نام ایک پیغام میں کھا ہے کہ وہ ان کے مطالبات پورے کرنے کے لیے اپنی پوری توانائیاں بروئے کار لائیں گے۔ان کا کھنا تھا کہ اگر وہ مظاھرین کے مطالبات پورے کرنے میں ناکام رھے تو اپنے عھدے سے مستعفی ھوجانے میں دیر نھیں کریں گے۔
قابل ذکر ہے کہ عراقی صدر برھم صالح نے ھفتے کے روز محمد توفیق علاوی کو ملک کا نیا وزیراعظم نامزد کرتے ھوئے نئی کابینہ بنانے کی دعوت دی تھی۔ محمد توفیق علاوی سن دو ھزار تین سے اب تک دوبار عراقی پارلیمنٹ کے رکن رھے ہیں جبکہ وزیراعظم نوری المالکی کی کابینہ میں وزیر ٹیلی مواصلات کے عھدے پر بھی کام کرچکے ہیں۔
نئے وزیراعظم کے بارے میں عراقی سیاسی جماعتیں منقسم
- Details
- Written by admin
- Category: اھم خبریں
- Hits: 154