www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 شام پر حملے کے منصوبے سے جان کیری کی ضمنی پسپائی کے بعد عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں گرگئی ہیں۔ ادھر اوباما نے واضح پسپائی 

اختیار کرتے ھوئے کھا کہ اگر شام کے ایٹمی ھتھیاروں کے سلسلے میں روسی منصوبہ نافذ ھوا تو ھم قطعی طور پر شام پر حملے کا منصوبہ روک دیں گے۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کھا ہے کہ اگر شام کی حکومت اپنے کیمیاوی ھتھیار حوالے کردے تو شام پر حملہ نھیں ھوگا جس کے بعد عالمی مارکیٹ میں تیل کی بڑھتی ھوئی قیمتیں نہ صرف رک گئیں بلکہ ان میں کمی بھی آئی اور برینٹ آئل کی قیمت 1.12 کم ھوکر 115 ڈالر تک گر گئی جبکہ امریکہ کے ھلکے تیل کی قیمت بھی 110 ڈالر فی بیرل ھوگئی ہے۔
رائٹرز نے لکھا ہے کہ دھونس دھمکیوں میں کمی آنے کے بعد تیل کی قیمتیں کم ھوئی ہیں اگرچہ بقول رائٹرز کے، جنگ کا خطرہ ابھی تک موجود ہے اور شام بھی اپنے ھتھیار کسی صورت میں بھی مغرب کے حوالے نھیں کرے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ جان کیری پسپا کیوں ھوا؟
وھاں کانگریس کا اجلاس جاری ہے اور ابھی تک فیصلہ نھیں ھوسکا ہے لیکن اسی اثناء میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کھا ہے کہ اگر شام کی حکومت اپنے تمام کیمیاوی ھتھیار بین الاقوامی حلقوں کے سپرد کرے تو وہ آنے والے ھفتے میں ممکنہ امریکی حملے کو روک سکتی ہے۔
کیری کے اس موقف کے بعد سوال اٹھایا گیا کہ جنگ کا ڈھول پیٹنے والے جان کیری نے اس بار سیاسی تجویز کیوں پیش کی؟
العالم کی رپورٹ کے مطابق جان کیری نے برطانوی ھم منصب ولیم ھیگ کے ساتھ مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ھوئے ایک بار دعوی کیا کہ شامی افواج نے کیمیاوی ھتھیار استعمال کئے ہیں لیکن اس کے اس دعوے کا اعتبار چند ھی منٹ تک باقی رھا اور اس نے کھا: امریکہ باریک بینی کے ساتھ حساس ٹھکانوں کو نشانہ بنا سکتا ہے جس کے لئے فوج شام میں بھجوانے کی ضرورت نھیں پڑے گی۔
کیری نے اس کے بعد فوری طور پر کھا: شام کے بحران کے لئے پر امن راہ حل کی ضرورت ہے اور اس کو فوجی اقدام سے حل نھیں کیا جاسکتا۔
اسی اثناء میں ایک عرب تجزیہ نگار "ولید عربید" نے ایشیا نیوز ایجنسی سے بات چـیت کرتے ھوئے کھا: پرامن راہ حل پر مبنی کیری کے نئے موقف کا براہ راست تعلق اس حقیقت سے ہے کہ ایسی کوئی رپورٹ موجود نھیں ہے جو ثابت کرے کہ شامی حکومت نے کیمیاوی ھتھیار استعمال کئے ہیں اور اقوام متحدہ کی تحقیقاتی کمیٹی بھی یہ ثابت کرنے میں ناکام رھی ہے کہ شام نے اس قسم کے ھتھیار استعمال کئے ہیں۔
انھوں نے کھا: روس نے ابتداء میں سیاسی راہ حل کی تجویز دی اور اس کے بعد کھا کہ لڑنا ہے تو پھر لڑو لیکن کیا دنیا تیسری عالمی جنگ کو برداشت کرسکتی ہے؟
انھوں نے کھا: عسکری کاروائی کی تجویز سے امریکی کانگریس کا اتفاق ایک منظرنامے کے سوا کچھ نھیں ہے کیونکہ افواج کے چیف کمانڈر اوباما ھی ہیں اور وہ خود ھی شام کے خلاف کاروائی کا فیصلہ کرسکتے ہیں تا ھم کانگریس اور سینٹ کے بعض اراکین شام پر حملے اور طویل المدت جنگ کے اخراجات اٹھانے کے خلاف ہیں تاھم سوال یہ ہے کہ کیا اس حملے کے بعد امریکی مفادات ثابت رہ سکیں گے؟ یہ وھی سوال ہے جو امریکہ کی رائے عامہ اور بعض اراکین کانگریس کی تشویش کا سبب بنا ھوا ہے۔
انھوں نے کھا: فرانسیسی صدر نے امریکی حملے کی تجویز سے اتفاق کیا ہے اور امریکہ کے باقی حلیف اس تجویز سے متفق نھیں ہیں لیکن صدر فرانسوا اولاند کو 68 فیصد کی مخالفت کا سامنا ہے اور یہ مسئلہ اس بات پر تاکید ہے کہ دنیا میں نئے قواعد سامنے آئے ہیں اور اس کے بعد امریکہ سمیت کوئی بھی ملک تن تنھا دنیا کا انتظام و انصرام چلانے کی اھلیت نھيں رکھتا۔
انھوں نے کھا: دمشق بھی 11 ستمبر کے واقعات سے استفادہ کرکے کھہ سکتا ہے کہ شام پر حملے کی صورت میں بڑی تعداد میں لوگ بھی شام میں برسرپیکار تکفیریوں کی حمایت کرسکتے ہیں اور شام کی حکومت بحران سے نکلنے کے لئے لبرل اور معتدل سنی تنظیموں کے ساتھ مذاکرات بھی شروع کرسکتی ہے۔ انھوں نے کھا: مجموعی طور پر شام کی حکومت کا تختہ الٹنا امریکی پالیسی کا اصل ھدف ہے کیونکہ شام اسرائیل کے لئے خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔
اوباما نے اپنی بات واپس لی؛
روسی منصوبہ نافذ ھو تو ھم حملہ نھیں کریں گے
امریکی صدر اوباما نے سی این این کے ساتھ گفتگو کرتے ھوئے شام کے کیمیاوی ھتھیاروں پر بین الاقوامی نگرانی کی روسی تجویز کو مثبت قرار دیا اور کھا کہ اگر شام اپنے ایٹمی ھتھیار حوالے کردے تو عسکری اقدام کو "قطعی طور پر" روکا جاسکتا ہے۔
تاھم اوباما کا کھنا تھا کہ جنگ کی دھمکی اس موضوع کو عملی جامہ پھنانے کے لئے ضروری تھی۔
اوباما نے کہا: گذشتہ ہفتے جی 20 کے اجلاس کے موقع پر اس موضوع پر ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ بات چیت ہوئی۔
انھوں نے کھا: ھم شام کے موضوع میں سیاسی راہ حل کو عسکری اقدام پر ترجیح دیتے ہیں۔
انھوں نے مزید کھا: اگر کانگریس شام کے خلاف عسکری کاروائی کی مخالفت کرے تو وہ شام پر حملہ نھیں کرے گا۔
لگتا ہے کہ جناب اوباما اپنی بڑھکوں والی پالیسی سے پسپا ھونے کے لئے کسی بھانے کی تلاش میں تھے جو اب انھیں مل چکا ہے اور ثابت ھوچکا ہے کہ امریکی کی یکطرفی حکمرانی کا دور واقعی اختتام پذیر ھوچکا ہے اور اب امریکہ کو ماننا پڑے گا کہ دوسرے کھلاڑی بھی اس دنیا میں ہیں جو اس کے تابع مھمل نھیں ہیں اور اب امریکہ کو دوسری کی رائے کا احترام سیکھنے کے لئے زیادہ سے زیادہ مشق کرنی پڑے گی۔
دمشق کے نواح میں کیمیاوی ھتھیاروں کے استعمال پر مبنی امریکی دستاویزات جعلی
ادھر معلوم ھوا ہے کہ دمشق میں کیمیاوی ھتھیاروں کے سلسلے میں دکھائی جانے والی ویڈیوز جعلی تھیں اور حکومت روس کا کھنا ہے کہ ان ویڈیو دستاویزات کے جعلی پن پر مبنی متعدد قابل اعتماد ثبوت موجود ہیں۔
اطلاعات کے مطابق روسی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ بین الاقوامی ماھرین نے جنیوا کے چوبیسویں اجلاس میں ایسی معتبر دستاویزات پیش کی ہیں جن سے ثابت ھوتا ہے کہ ریف دمشق میں کیمیاوی ھتھیاروں کے مبینہ استعمال کے بارے میں امریکیوں کے پاس موجودہ تصاویر اور ویڈیو دستاویزات جعلی ہیں۔
روسی وزارت خارجہ کے بیان میں کھا گیا ہے: اقوام متحدہ کے جنیوا ھیڈ کوارٹر میں نوجون کو ھونے والے چوبیسیوں اجلاس کے موقع پر ماھرین کی پیش کردہ دستاویزات سے معلوم ھوتا ہے کہ 21 اگست کو شامی افواج کے مبینہ کیمیاوی حملے کے سلسلے میں جو دستاویزات امریکیوں نے پیش کی ہیں وہ جھوٹی اور جعلی ہیں اور انھیں 21 اگست سے پھلے ھی تیار کیا گیا تھا۔
روسی وزارت خارجہ نے مزید کھا ہے کہ شام کے خلاف طاقت کے استعمال کی امریکی دھمکی، جنگی امریکیوں کی طرف سے جنگی منظرنامے کی تیاری اور اقوام متحدہ کو بائی پاس کرکے یک طرف طور پر حملہ، سب غیر قانونی ہے اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔
اس بیان میں مزید کھا گیا ہے کہ جنیوا کے اجلاس کے شرکاء نے زور دے کر کھا کہ بین الاقوامی برادری شام پر امریکی حملے کی تائید نھیں کرتی کیونکہ شام پر جارحیت اس ملک کے اندر اور ارد گرد کے ممالک میں انسانی المیوں کا سبب بن سکتا ہے اور اس طرح کہ حملہ قطعی طور پر انتھا پسندوں اور دھشت گردوں کے فائدے میں ھوگا۔
 

Add comment


Security code
Refresh