www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 انسانی حقوق کونسل کی جانب سے بحرین میں مظاھرین پر مظالم اور انسانی حقوق کی سخت خلاف ورزی پر بحرینی حکام کی مذمت کے 

باوجود، مظاھرین کے خلاف تشدد اور سیاسی بحران کا سلسلہ جاری ہے۔
بحرین کے انسانی حقوق کے سرگرم کارکن احمد الوداعي نے رشیا ٹوڈے سے بات کرتے ھوئے بحرینی عوام کے خلاف آل خلیفہ حکومت کے تشدد کو جمھوریت کے لئے جاری کوششوں پر کاری ضرب قرار دیا اور کھا کہ یہ تشدد، آمریت کے خلاف تحریک کے مظاھرین اور انقلابیوں کے ارادے کو اور مضبوط کرے گا۔
اطلاعات کے مطابق، بحرین کی حکومت، دارالحکومت منامہ سمیت مختلف علاقوں میں بھاری تعداد میں سکیورٹی فورسز تعینات کرکے ملک میں مظاھروں کا سلسلہ روکنے کی کوشش کر رھی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ بحرین میں آنے والے انقلاب کے دوران اب تک دسیوں افراد شھید اور سینکڑوں زخمی ھو چکے ہیں جبکہ ھزاروں افراد کو حکومت مخالف مظاھروں میں حصہ لینے کی پاداش میں ملازمتوں سے نکال دیا گیا ہے۔
بحرین کے عوام اپنے سینوں پر گولیاں کھاکر آل خلیفہ کی شاھی حکومت کو ختم کرنے عزم کئے ھوئے ہیں کہ جنھیں یا تو مغرب میڈیا نظر انداز کر رھا ہے یا عرب میڈیا کے ساتھ مل کر شر پسند قرار دے رھا ہے۔
بحرین میں اس وقت امریکہ کا پانچواں بحری بیڑا تعینات ہے اور امریکہ نھیں چاھتا کہ یہ اڈہ اس کے ھاتھوں سے نکل جائے لھذا اس کی پوری کوشش یہ کہ بحرین کے عوام کی تحریک کو ھر قیمت پر کچل دیا جائے۔
سپاہ پاسداران کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی بقول کسی بھی اسلامی ملک میں جمھوریت کا نفاذ مغرب کے نقصان میں ہے۔ مصر کی مانند کسی بھی دوسرے ملک میں آمریت کے خاتمے اور ایک عوامی حکومت کی تشکیل کے تصور سے ھی امریکہ، پر بوکھلاھٹ طاری ھوجاتی ہے اس لئے وہ مصر کے ھاتھ سے نکل جانے بعد شام میں کوئی ایسی حکومت کے خواھاں ہیں جو حسنی مبارک کے خلا کو پر کردے۔
اگرچہ اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری بان کی مون نے گذشتہ سال کے اوائل میں اپنی خاموشی توڑتے ھوۓ بحرین کے حالات پر تشویش ظاھرکی اور آل خلیفہ کی شاھی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے عوام کے حقوق کا احترام کرے۔ اس دوران یورپی یونین کی انسان حقوق کی تنظیم نے بھی ایک بیان میں انسانی حقوق کے حامیوں کے ساتھ اختیار کئے جانے والے طرزعمل اور سلوک و غیرانسانی اور غیرقانونی قرار دیا تھا۔اگرچہ بحرین کے عوام کی حریت پسندی کی آواز کا جواب لاٹھی گولی اور تشدد سے دیا جا رھا ہے لیکن اس کے باوجود ان کے عزم اور مطالبات میں کوئی تبدیلی نھیں آئی ہےاور بدستور منامہ کی سڑکوں پر مظاھرے کر رھے ہیں۔
مملکتِ بحرین خلیج فارس میں واقع ایک جزیرے پر مشتمل چھوٹا سا ملک ہے جس کے مشرق میں قطر واقع ہے۔ جبکہ جنوب اور مغرب میں سعودی عرب ہے اور ایک پل کے ذریعے بحرین سے منسلک ہے۔اس ملک کا رقبہ 665 مربع کلو میٹر ہے۔ شیخ عیسی خلیفہ نے 1999 سے اقتدار سنبھال رکھا ہے۔ شیخ عیسی خلیفہ اور 2002 میں اس ملک کی حکومت کو امارت سے شاھی نظام میں تبدیل کرکے خود کو امیر کی بجائے اس ملک بادشاہ قرار دینے فرمان جاری کیا۔ سن ساٹھ کے عشرے اختتام تک یہ جزیرہ ایران کی ملکیت میں تھا تاھم 15 اگست 1971 کو ایران نے واگذار کرنے کا اعلان کردیا۔ تاریخی شواھد کے مطابق اس جزیرے پر آل خلیفہ خاندان سن 1765 سے مسلط ہے اور شیخ حمد بن خلیفہ آل ثانی 13 ویں حکمران کی حثیت سے 1999 میں تخت نشین ھوا گویا ساڑھے تین سو سال سے آل خلیفہ خاندان اس دولت مند جزیرے پر حکمرانی کے مزے لوٹ رھا ہے۔ تین برس قبل جب شمالی افریقہ اور عرب ممالک میں بیداری کی لھر اٹھی تو بحرین کی عوام نے اپنے آواز بلندکی اور پھلی مرتبہ حکمرانوں سے اپنا حق مانگا۔ لیکن تیونس، ، لیبیا، مصر اور یمن میں عوامی مظاھروں کی پل پل کی خبریں میڈیا پر آنے لگیں لیکن بحرین کے مسئلے پر پورے عرب او مغرب کے آزاد میڈیا نے سکوت کی پالیسی اختیار کرلی اور بحرین کی عوامی تحریک کی خبروں اور شاھی حکومت کے مظالم سے متعلق رپورٹوں کو سنسر کیا جانا لگا۔
بحرین کے عوام کی انقلابی تحریک کو سنسر کئے جانے کی وجوھات جاننے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ ایک تو یھاں امریکہ فوجی اڈا موجود ہے اور دوسرے یہ کہ اس ملک عوام کی اکثریت ایرانی عوام کی مانند شیعہ مسلک سے تعلق رکھتی ہے۔ لھذا امریکہ مغرب اور اس خطے میں موجود ان کے اتحادی ممالک نھیں چاھتے کہ اس خطے میں ایران کی طرح کی انقلاب فکر کا حامل کوئی دوسرا ملک وجود میں آئے اور ان کے مفادات کے لئے خطرہ بنے۔ یعنی اگر شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے عوام اپنے ملک میں جمھوریت کی بات کریں تو یہ امریکہ کو پسند نھیں ہے۔
مغرب سے وابستہ عرب میڈیا نے بھی بحرین کے مسئلے کو شیعہ سنی کا رنگ دینے کی کوشش کی اور سعودی عرب نے تو باضابطہ طور پر اس ملک میں اپنی فوج داخل کردی تاکہ سنی بادشاھت کا دفاع کیا جا سکے میڈیا کے ذریعے گمراہ کن پرو پگنڈے کے ذریعے مسلمان رائے عامہ کو یہ باور کرادیا گیا کہ بحرین کے شیعہ وھاں کی سنی حکومت کے خلاف تحریک چلا رھے ہیں۔ لیکن ان کا یہ پرو پگنڈا اس وقت دم توڑ گیا جب مصر میں اخوان المسلمین جیسے کٹر سنی مسلک کی حکومت کو گرانے کے لئے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اربوں ڈالرجنرل سیسی جیسے امریکہ نواز کی جیبوں میں بھر دیئے اور اس بات کی بھی پرواہ نھیں کی کہ مصر میں ایک طویل جدوجھد کے بعد ایک اخوان المسلمین کی حکومت قائم ھوئی ہے جو اسلام نواز بھی بھی اور جمھوری بھی، لیکن افسوس کے ساتھ کھنا پڑتا ہے کہ سعودی عرب نے جو شام میں تو اسلامی امارت کے تشکیل کے لئے ھر جائز و ناجائز طریقہ کار اپنائے ھوئے ہے لیکن مصر میں بنی بنائی ایک اسلامی حکومت کو گرانے کے لئے اس نے حتی اپنے چھرے کو چپھانے کی بھی کوشش نھیں کی اور ایک کٹر سنی جماعت کے منتخب صدر کا تختہ پلٹے جانے کی کھل کر حمایت کی اور جنرل سیسی کو اقتدار ھاتھ لینے پر مبارکباد کا پیغام بھجوایا۔
یہ وھی سعودی عرب ہے جو اس سے قبل افغانستان میں طالبان کی امارات اسلامی کا تختہ الٹے جانے کے پورے اخراجات اٹھا چکا ہے اور اب اخوان مسلمین کی حکومت کے خاتمے پر مسرت اور خوشی کے شادیانے بجا رھا ہے۔یہ وھی سعودی عرب ہے جو شام جمھوریت کے فقدان پر گریاں کناں ہے لیکن بحرین میں اپنی فورسز کے ذریعے عوامی تحریک کو کچلنے کے لئے آل خلیفہ کی شاھی حکومت کا ساتھ دے رھا ہے۔
لیکن بحرین کے عوام نے بھی اس بات کا پختہ عزم کر رکھا کہ اس دولت مند جزیرے سے آل خلیفہ کی مورثی شاھی حکومت کا خاتمہ کرکے ھی دم لیں گے اور ایرانی عوام کی طرح اپنے ملک سے امریکہ کے فوجی اڈے کو ختم کردیں گے۔
 

Add comment


Security code
Refresh