امریکہ میں شھری آزادی کی حامی ایک تنظیم نے حکومت کےان قانونی معیاروں کو واضح کرنے کا مطالبہ کیا ہے جن کی بنیاد پر ایف بی آئی
کو نگرانی اور کنٹرول کے اختیارات سونپے جاتے ہیں ۔
امریکہ کی شھری آزادی کی حامی اس تنظیم نے اپنی رپورٹ میں امریکی شھریوں کی جاسوسی کے لئے فیڈرل تحقیقاتی ادارہ ایف بی آئی کے قانونی اختیارات میں اضافہ کو امریکی شھریوں کے حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ۔
اس تنظیم نے اپنی رپورٹ میں گیارہ ستمبر دوھزار ایک میں امریکہ میں ھونے والے دھشت گردانہ حملوں سے آج تک یعنی گزشتہ بارہ سال کے عرصہ میں ایف بی آئی ، کے اختیارات میں اضافہ کے خلاف کی جانے والی شکایات کی فھرست پیش کی ہے۔
اس رپورٹ میں اسی طرح ایف بی آئی کے ملازمین کے اپنے اختیارات سے غلط فائدہ اٹھانے کے ثبوت وشواھد بھی پیش کیے گئے ہیں۔یہ ایسی حالت میں ہے کہ ایف بی آئی کے حکام اس بات کا دعوی کرتے ہیں کہ ایف بی آئی کے ملازمین کی کاکردگی ، امریکی فیڈرل قانون کے دائرے میں ہے اور یہ اقدامات امریکی شھریوں پر دھشت گردانہ حملوں کی روک تھام کےلئے ضروری ہیں۔
گیارہ ستمبر کے واقعہ کےبعد سیکورٹی کی برقراری کے بھانہ امریکی شھریوں کے حقوق کی محدودیت میں اضافہ ھوا ہے ۔گیارہ ستمبر کے واقعہ کے بعد منظور کیا جانے والا اھم ترین سیکورٹی بل جس نے امریکی شھری آزادی کے ماحول میں بنیادی تبدیلی پیدا کردی وطن پرست یا وطن دوست کے نام سے معروف ہے۔
اس قانون کے مطابق سرکاری حکام کو یہ حق حاصل ہے کہ امریکی شھریوں اور سرکاری حکام کے مد نظر افراد کی سرگرمیوں کی ان کی اطلاع کے بغیر خفیہ طور پر نگرانی اور جاسوسی کریں ۔اس قسم کے نئے قانون بلاشک وشبہ اس ملک کے بنیادی آئین کے مطابق امریکی شھریوں کے مسلمہ حقوق کو پامال کر رھے ہیں۔اور یہ امر امریکیوں کے درمیان ناامنی اور تشویش کا باعث بنے گا ۔یہ ایسا مسئلہ ہے کہ کئے جانے والے سروے رپورٹوں سے بھی اس کی تصدیق ھوتی ہے ۔
اکثر امریکیوں کا کھنا ہے کہ ایف بی آئی کو جاسوسی کے لئے دیے جانے والے اختیارات حد سے زیادہ ہیں۔اور وہ ان اختیارات سے بے دریغ استفادہ کرسکتے ہیں ۔
ادھر اوبامہ حکومت دھشت گردی کے خلاف مھم کے بھانے ایک عرصہ سے امریکی عوام کی آزادی اور بنیادی آئین کاگلا گھونٹنےپر مبنی امریکہ کی سابق حکومت کی پالیسی پر عمل پیراہے ۔اور ایسا نظر آتاہے کہ صدر اوباما اس غلط راستے پر چل کر سابق صدر بش سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔
گیارہ ستمبر کے واقعہ کے بعد امریکی اٹارنی جنرل جان اشکرافٹ نے شھری حقوق میں کمی لانے اور انھیں محدود کرنے کا آغاز کیا اور ان کے تین سال بعد ان کے جانشین مائیکل موکاسے، نے ایف بی آئی کے اراکین کو ھر طرح کے اقدامات انجام دینے کی اجازت دے دی۔
موکاسے نے جو تدابیر وضع کیں ان سے ایف بی آئی کو یہ اجازت مل گئی کہ ان افراد کی تحقیقات کرے کہ جو مذھب یانسل ونژاد کے حوالے سے بد گمانی کا شکار بن جائیں۔مثال کے طور پر ایف بی آئی ، کی تحقیقات کی سب سے نچلی سطح ( جائزے ) تحقیق کے نام سے موسوم ہے ۔اور یہ امر ایف بی آئی کے ملازمین کو اس چیز کی اجازت دینے کا باعث بنا کہ وہ جارحیت یا دھشت گردی کے بارے میں کسی قسم کے ثبوت وشواھد کے بغیر عوام کی زندگی میں مداخلت کریں ۔
باعث تعجب بات یہ ہے کہ اوباما کی حکومت کی نظر میں موکاسہ کی تدابیر بھی جامع نھیں تھیں اور دوھزار نو میں امریکہ کے اٹارنی جنرل کی حیثیت سے اریک ھولڈر کے آنےکے بعد سےھمیشہ ایف بی آئی ، کے اختیارات بڑھائے جانے کے درپےرھی ہے ۔اب یہ سوال پیدا ھوتاہے کہ کیا ان قوانین کا نفاذ امریکی شھریوں کی آزادی کے مسلمہ حق کی پامالی کے جواز کے مترادف قرار پاسکتاہے۔