www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

643510
تقریبا ایک مھینہ پھلے شام کے صدر بشار اسد نے رشا ٹو ڈے سے گفتگو کرتے ھوئے کھا تھا کہ وہ امریکا کے ساتھ جنگ نھیں کر سکتے جو شام کے تیل کے کنوؤں پر قبضہ کئے ھوئے لیکن وہ عراق کی طرح شام سے امریکا کو نکالنے کے لئے مزاحمت کے محاذ کا سھارا ضرور لے سکتے ہیں۔
اس بیان کے ایک مھینے بعد خبروں میں بتایا جا رھا ہے کہ دریائے فرات کے مشرقی ساحل پر شامی تیل کے کنوؤں کے پاس امریکی چھاونیوں پر "نامعلوم" افراد نے راکٹوں سے حملہ کیا اس کے کچھ دنوں بعد خبر ملی کہ شامی فضائیہ کے طیاروں نے امریکی حمایت یافتہ گروھوں پر بمباری کی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب شامی تیل پر امریکا کے قبضے کو ختم کرنے اور شام سے امریکا کو نکال باھر کرنے کے لئے کسی جنگ کا آغاز تو نھيں؟
اس سوال کا جواب "ھاں" میں اس لئے بھی زیادہ صحیح ہے کیونکہ شام میں ان واقعات کے ساتھ ھی عراق میں امریکی چھاونی عین الاسد پر بھی چار راکٹ فائر کئے گئے وہ بھی جب امریکی نائب صدر نے صرف چار دن پھلے ھی اس چھاونی میں جاکر امریکی فوجیوں سے ملاقات کی تھی۔
صدر ٹرمپ، شام کے تیل کے کنوؤں پر قبضے پر فخر کرتے ہیں اور واضح الفاظ میں کھتے ہیں کہ اس سے ھونے والی آمدنی کا وہ استعمال کریں گے اور اس کا ایک حصہ، امریکی حمایت یافتہ کرد فورس کو بھی دیا جائے گا لیکن سب سے زیادہ خطرناک بیان اسرائیلی تاجر "موردخائی کھانا" کا ہے جو انھوں نے "اسرائیل ھیوم' کے ساتھ ایک انٹرویو میں دیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اسرائیل کی "گلوبل ڈولپمنٹ کارپوریشن" کمپنی نے شمال مشرقی شام میں اسی کرد فورس کے ساتھ ایک معاھدے پر دستخط کئے ہیں جن کی بنیاد پر اس علاقے کے سبھی تیل کے کنوؤں کے سارے امور اس اسرائیلی کمپنی کو مل جائے گا اور یہ سب کچھ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے گرین سگنل کے ساتھ ھوا ہے۔
شام کے اس کنویں سے چوری کئے جانے والے تیل کی مقدار 125 بیرل روزانہ ہے جو 4 لاکھ بیرل روزانہ ھو سکتی ہے۔ فی الحال شام سے امریکا کی جانب سے چوری کئے جانے والے اس تیل کی آمدنی 36 ملین ڈالر ماھانہ ہے۔ اس آئل فیلڈ پر اس سے پھلے دھشت گرد گروہ داعش کا تین سال تک قبضہ رھا۔
ھمارا یہ کھنا غلط نھيں ھوگا کہ جنگ کا دوسرا مرحلہ، شام اور عراق کے سرحدی علاقوں میں شروع ھو چکا ہے جھاں گیس اور تیل کے ذخائر ہیں اور وھاں امریکی چھاونیاں ہیں اور امریکی فوجی ان ذخائر کی حفاظت کر رھے ہيں۔ لگتا ہے گوریلا جنگ کا آغاز ھو چکا ہے جس کی مدد سے عراقیوں نے امریکا کو اپنے ملک سے عقب نشینی پر مجبور کر دیااور جس میں کم از کم 500 امریکی فوجی ھلاک ھوئے تھے۔
موجودہ مزاحمتی محاذ کو مضبوط بنانے اور ھتھیار دینے میں شام کا اھم کردار رھا ہے اور شامی خفیہ ایجنسی کے پاس گوریلا جنگ کے بارے میں کافی اھم معلوماتیں۔ شام کی قومی سیکورٹی کے ادارے کے سربراہ علی المملوک کا مشرقی شام کا دورہ اور قبائلی سرداروں سے ملاقات کو الگ طرح کی جنگ کا مقدمہ بھی سمجھا جا سکتا ہے۔
شام کا تیل اور گیس، شام کا قومی اثاثہ ہے اور ھر شامی شھری کا اس پر حق ہے اور اس کی آمدنی، شام کے قومی خزانے میں جانی چاھئے۔ ھمیں پورا یقین ہے کہ شامی فوج، شامی مزاحمتی گروہ، عراقی رضاکار فورس کی مدد سے دریائے فرات کے مشرقی ساحل پر قبضہ پھر سے قائم کر لیں گے اور یہ طاقتیں مل کر امریکی فوجیوں کو وھاں سے نکال باھر کریں گی۔
رای الیوم - عبد الباری عطوان

Add comment


Security code
Refresh