امریکی سینیٹ نے بھی ایران کے خلاف صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جنگ کے اختیارات محدود کرنے کی منظوری دے دی ہے۔
ایران کے خلاف جنگ کے اختیارات" کے نام سے موسوم اس قرارداد پر رائے شماری کے دوران امریکی سینیٹ کے پچپن ارکان نے حق میں جبکہ پینتالیس نے مخالفت میں ووٹ دیئے۔
اس قرار داد کی رو سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو کانگریس کی اجازت کے بغیر ایران کے خلاف کسی بھی قسم کے فوجی اقدام کی اجازت نھیں ھوگی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ دعوی کرتے ھوئے کہ یہ قرار داد ایران کے مقابلے میں کمزوری کی علامت بنے گی، سینیٹ کے ارکان سے اپیل کی تھی کہ وہ اسے مسترد کردیں۔
ایران کے خلاف صدر ٹرمپ کے جنگی اختیارات محدود کرنے کی یہ قرار داد ڈیموکریٹ سینیٹر ٹم کین نے ایوان میں پیش کی تھی۔
اس سے پہلے پہلے تیس جنوری کو امریکی ایوان نمائندگان نے بھی ایسی ھی دوقراردادوں کی منظوری دی تھی۔
امریکی ایوان نمائندگان کی سربراہ نینسی پیلوسی نے صدر کے جنگی اختیارات سے متعلق قراردادوں کی منظوری کے بعد کھا تھا کہ کانگریس کے ارکان کو اسلامی جمھوریہ ایران کے ساتھ دشمنی کے حوالے سے صدر ٹرمپ کے فیصلوں کے بارے میں فوری اورٹھوس تشویش لاحق ہے۔
جنرل سلیمانی اور ان کے ساتھیوں پر بزدلانہ حملے کے بعد صدر ٹرمپ کی ایران مخالف دھمکیوں نے امریکی کانگریس کو انتھائی تشویش میں مبتلا کردیا ہے اور جب ھی سے ڈیموکریٹ ارکان ایران کے خلاف جنگ سے متعلق صدر ٹرمپ کے اختیارات محدود کرنے کوشش کر رھے تھے۔
دوسری جانب روزنامہ واشنگٹن پوسٹ نے جنرل قاسم سلیمانی کی شھادت کے بعد ایران کی انتقامی کاروائی سے امریکی فوجیوں میں پیدا ھونے والے شدید خوف و ھراس کی اندرونی داستان کا انکشاف کیا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ نے ایک امریکی فوجی کے حوالے سے لکھا ہے کہ امریکی فوجیوں میں پائے جانے والے خوف و ھراس میں بے تحاشہ اضافہ ھوگیا ہے۔
امریکی جریدے کے مطابق بغداد ایئر پورٹ کے قریب حملے کے بعد ایک امریکی بحری جھاز یو ایس ایس نورمنڈی کے کمانڈر کرسٹوفر اسٹیون نے اپنے فوجیوں کو یہ پیغام دیا کہ امریکہ نے ایران کے طاقتور ترین فوجی کمانڈر کو قتل کردیا ہے اور اب معلوم نھیں ہے کہ ایران اس پر کس قسم کا ردعمل ظاھر کرے گا لھذا ھمیں ھر طرح کی صورتحال کے لیے تیار رھنا ھوگا۔
یوایس ایس نورمنڈی پر تعینات اسلحہ انچارج ڈیوڈ ریمرز نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا ہے کہ آج تک کسی نے بھی خطرے کی اتنی اونچی سطح کا نہ مشاھدہ کیا ھوگا اور نہ دیکھا ھوگا اور اس کشیدگی کے دوران جو کچھ میرے علم میں آیا وہ یہ ہے یہ خطرات کی سب سے اونچی سطح شمار ھوتی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ دھشت گرد امریکی فوج نے تین جنوری کو بغداد ایئر پورٹ کے قریب بزدلانہ ڈرون حملہ کرکے، دھشت گردی کے خلاف جنگ کی کمانڈ کرنے والے ایران کی قدس فورس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی اورعراق کی عوامی رضاکار فورس حشدالشعبی کے کمانڈر جنرل ابومھدی المھندس کو ان کے آٹھ دیگر ساتھیوں کے ساتھ شھید کردیا تھا۔
ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے آٹھ جنوری کو امریکہ کے دھشت گردانہ اقدام کا جواب دیتے ھوئے عراق کے صوبے الانبار میں قائم امریکی دھشت گرد فوج کے سب سے بڑے اڈے عین الاسد کو میزائل حملوں کا نشانہ بنایا تھا۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمیت تمام امریکی عھدیداروں نے "عین الاسد" چھاونی پر ایران کے میزائل حملوں کے بعد دعوی کیا تھا کہ اس حملے میں کوئی بھی امریکی فوجی ھلاک یا زخمی نھیں ھوا۔ لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد امریکی وزارت جنگ پینٹاگون نے بتدریج اس بات کا اعتراف کرنا شروع کیا کہ اس کے کچھ فوجی ایران کے حملے میں زخمی ھوئے ہیں اور ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ھوتا جارھا ہے۔
امریکی ذرائع ابلاغ نے پچھلے چند ھفتوں کے دوران پینٹاگون کے عھدیداروں کے حوالے سے جو اعداد و شمار جاری کیے ہیں ان میں "عین الاسد" چھاونی پر ایران کے میزائل حملے میں پہلے آٹھ، پھر سولہ،اس کے بعد چونتیس، پھر پچاس اور اس کے بعد چونسٹھ امریکی فوجیوں کے زخمی ھونے کا اعلان کیا گیا ہے جبکہ حال ہی میں یہ تعداد بڑھ کر ایک سو نو تک پھنچ گئی ہے۔
اکثر تجزیاتی رپوٹوں کے مطابق "عین الاسد" چھاونی پر ایران کی انتقامی کارروائی میں متعدد امریکی فوجی ھلاک بھی ھوئے ہیں لیکن ٹرمپ انتظامیہ رائے عامہ کے غیظ و غضب سے بچنے اور اپنی ساکھ بچانے کے لیے اس کے اعتراف سے گریزاں ہے۔
سینیٹ نے بھی امریکی صدر کے ھاتھ باندھ دییے
- Details
- Written by admin
- Category: اھم خبریں
- Hits: 213