www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

116116
اس وقت راقم الحروف کے سامنے دو المناک واقعوں کے متعلق چند تفصیلات ہیں، جن کی بنیاد پر ان دو واقعات کے مابین تقابلی جائزے سے ایک خاص پیغام قارئین کرام تک پھنچانے کی بساط بھر سعی کی جائے گی۔
پھلا حادثہ سرینگر کشمیر کے ایک گنجان آباد علاقے مھجور نگر میں پیش آیا، جبکہ دوسرا دلدوز سانحہ پاکستان کے ایک صوبہ سندھ کے ایک علاقہ سیھون شریف میں رونما ھوا۔ ھر دو واقعات کے تقابلی جائزے کا ایک اھم مقصد یہ ہے کہ ظلم و بربریت کو ھمدردی کے روبرو کیا جائے، شقاوتِ قلبی اور رحم دلی کا آمنا سامنا ھو، درندگی کو انسانیت کا آئینہ دکھایا جائے، غلط فکر و سوچ کا صحیح طرزِ تفکر سے موازنہ کیا جائے اور انتھاء پسند ذھنیت کو رد کرکے راہِ اعتدال کی نشاندھی کی جائے، کیونکہ شقاوتِ قلبی رحم دلی کے سامنے، ظلم و بربریت ھمدردی و ایثارگری سے درندگی انسانیت کے پس منظر میں اور غلط فکر ایک اچھی فکر کے ساتھ اور زیادہ نمایاں بلکہ عریاں ھو جاتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح نور کے سامنے ظلمت شرمسار ھو جاتی ہے، دوسری جانب ھمدردی اور ایثار (جو اس مادی دور میں نایاب ہے) کی قدر و قیمت بھی دو چند نظر آئے گی۔
اول الذکر حادثہ کے متعلق تفصیلات ایک ویب سائٹ انتھ ڈاٹ کام ( INUTH.COM) میں چھپی ہیں، جن کے مطابق 14 فروری 2017ء کو مھجور نگر علاقے میں ایک تین منزلہ عمارت میں اچانک بھیانک آگ نمودر ھوگئی۔ اس عمارت میں رھنے والے ایک سکھ گھرانے کے سبھی افراد مکان سے باھر آکر جان بچانے میں کامیاب تو ھوگئے لیکن بدقسمتی سے اسی گھرانے سے تعلق رکھنے والی بائیس سالہ دوشیزہ اس آتش زدہ مکان سے باھر نہ آسکی۔ چنانچہ چند ایک رکاوٹوں کے سبب فائر ٹندر بروقت جائے واردات پر نہ پھنچ سکے۔ مقامی مسلمانوں نے جب روشنی نامی اس دوشیزہ کے آگ میں پھنس جاٍنے کے بارے میں سنا تو وہ سب شتابانہ اپنے گھروں سے باھر آگئے اور روشنی کی زندگی کو بچانے کی چارہ جوئی کرنے لگے۔ ریاض احمد ریشی نامی ایک آٹو ڈرائیور، حاجی اخلاق احمد اور مدثر احمد کبو جیسے جانبازوں کی جانبازی اور ھوشمندی سے آگ کے شعلے اگلنے والے مکان کے اس حصے تک پھچنے کا راستہ مھیا ھوا، جھاں یہ دوشیزہ آگ کے شعلوں سے موت و جیات کی جنگ تنِ تنھا لڑ رھی تھی۔ بھرحال متذکرہ افراد اپنی جان جوکھوں میں ڈالے مکان میں کلمہ لاالٰہ پڑھ کر داخل ھوئے۔ روشنی کو وھاں سے نکال کر ھسپتال تو پھنچایا گیا مگر ڈاکٹر اس کی جان نھیں بچا پائے۔
اس رپورٹ کو تحریر کرنے والے صحافی ماجد حیدری کے مطابق روشنی کی المناک موت سے اس کے خانوادے پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ ساتھ ھی ساتھ مقامی مسلمان بستی میں بھی غم و الم کی لھر دوڑ گئی۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق اس دوشیزہ کی دو بھنیں بیرونِ ریاست یعنی چندی گڑھ میں پڑھائی کے سلسلے میں مقیم تھیں۔ لٰھذا 14 فروری کو فوت شدہ سکھ خاتون کی آخری رسومات 15 فروری بعدِ دوپھر انجام پائیں۔ سکھوں کی مذھبی روایات کے مطابق فوت شدہ شخص کے ورثاء تب تک کھانے پینے سے پرھیز کرتے ہیں، جب تک اس کی آخری رسومات تکمیل کو نہ پھنچیں۔ اس لحاظ سے غمزدہ خاندان سے وابسطہ تمام افراد ڈیڑھ دن تک کھانے پینے سے گریزاں رھے۔ مقامی مسلمانوں نے نہ صرف پسماندگان کی ھر پھلو سے ڈھارس بندھائی بلکہ ایک مقامی معزز شھری حاجی اخلاق احمد کا کھنا تھا کہ’’اس دوشیزہ کی المناک موت سے ھم اس قدر متاثر ھوئے کہ کافی کوششوں کے باوجود بھی ھم سے بھی کچھ کھایا نہ گیا۔ ھمیں اس بات کا دکھ ہے کہ لاکھ کوششوں کے باوجود بھی ھم اس کی جان نہ بچا پائے۔" مزید برآں مقامی مسلمان خواتین نے نہ صرف اگلے ھی روز جلوس کی صورت میں اس واقعے کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظھار کیا، اس جلوس میں یہ خواتین کچھ اس قسم کے نعرے لگا رھی تھیں۔ روشنی مویہ بے گناہ۔۔۔ لا الٰہ الااللہ، یعنی روشنی بچاری بے گناہ مرگئی ۔۔۔۔۔ لا الٰہ الااللہ۔ یتی گو کربلا۔۔ اس کی موت سے یھاں کربلا برپا ھوگئی۔ لا الٰہ الااللہ۔ یہ نعرے بذاتِ خود مذھبی عصبیت کی رد اور انسانی ھمدردی کی غمازی کرتے ہیں۔
اب ذرا دوسرے المناک واقعے کی طرف رخ کریں۔ مذکورہ بالا واقعے کے ٹھیک دو روز بعد پاکسان کے صوبہ سندھ میں ایک معروف ولی اور صوفی بزرگ کے مزار پر ھزاروں عقیدتمند حاضر تھے، کہ ایک خودکش حملہ آور نے آکر اپنے ساتھ ساتھ قریباً سو افراد کی جان لے لی۔ جس میں بیس کم سن بچوں سمیت بھت سی خواتین بھی جان بحق ھوگئیں۔ جائے واردات پر ایک تصویر میں چند ایک بچوں کی جلی بھنی لاشوں کے ساتھ ساتھ شیر خوار بچے کا فیڈر (دودھ کی بوتل) بھی پڑا ھوا دکھائی دیتا ہے اور اس کے تھوڑے ھی فاصلہ پر چند ایک شیر خوار بچے کے مسخ شدہ لاشے بھی اس منظر کو اور بھی زیادہ درد ناک انداز میں پیش کر رھے تھے۔
ان دو مختلف غم انگیز واقعات کے تقابلی جائزے سے یہ نکتہ ابھر کر سامنے آجاتا ہے کہ ایک کلمہ گو اور دوسرے کلمہ گو میں زمین و آسمان کا فرق ھوسکتا ہے۔ ایک کلمہ گو وہ ہے کہ جو کلمہ پڑھ کر کسی غیر مسلم دوشیزہ کی جان بچانے کے لئے آگ کے شعلوں میں کود پڑتا ہے اور دوسرا کلمہ گو وہ ہے کہ جو یھی کلمہ پڑھ کر ھزاروں کلمہ گو افراد کو موت کے گھاٹ اتارنے کی کوشش کرتا ہے۔
واضح رھے اس طرح کے خودکش دھماکے دنیا کے مختلف ممالک ھوتے رھتے ہیں۔ چند ایک مسلم ممالک تو سالھا سال سے ان خودکش دھماکوں کی زد میں ہیں اور ایک بڑی تعداد میں بے گناہ لوگ مارے جا چکے ہیں۔ یہ حقیقت کڑوی ہے سھی مگر حقیقت ہے کہ ان دھماکوں میں ملوث افراد کا تعلق ایک خاص فکر و ذھنیت سے ہے، جس کے مطابق اس مخصوص فکر سے روگردانی کسی بھی انسان کو تکفیر کے کھاتے میں ڈال دیتی ہے۔ نیز اس تکفیر کے جرم میں اسے قتل کرنا کوئی جرم ہے ھی نھیں۔
فی الوقت شھباز قلندر کے مزار پر ھونے والے خودکش دھماکے کو ھی لیجئے۔ یھاں بھی خودکش دھماکہ کرنے والا کسی اور مذھب کا پیروکار نھیں بلکہ مسلمانوں کے ھی اس گروہ سے تعلق رکھنے والا نوجوان نکلا، جو اپنے آپ کو خالص اور حقیقی مسلمان سمجھتا ہے۔ اس سے بڑھ کر المیہ کیا ھوسکتا ہے کہ شھباز قلندرؒ کا اصل نام سید عثمان مروندیؒ ہے اور اس خودکش دھماکہ کرنے والے کا نام بھی محمد عثمان ھی بتایا جا رھا ہے۔ خودکش بمبار کی جو تصویر سماجی رابطہ سائٹس پر دکھائی جا رھی ہے، اس کے مطابق یہ ایک نوجوان ہے اور جیسے اس نے ابھی ابھی جوانی کی دھلیز پر قدم رکھا ہے۔ ظاھر ہے ایک نوجوان فطرتاً تمام تر عصبیتوں سے پاک ھوتا ہے اور اس کے وجود کا پیمانہ جامِ محبت سے سرشار ھوتا ہے۔ کسی دوسرے کے ساتھ نہ سھی اسے کم از کم حبِ ذات (اپنے آپ سے محبت) تو حد درجے کی ھوگی اور اس طور جینے کی تمنا ھر دوسرے شخص سے اسے زیادہ ھوگی۔ لٰھذا اس کے پیکر سے روحِ محبت نکال کر نفرت کا بارود بھرنا کارے دارد والا معاملہ ہے۔ جان لیجئے جو لوگ انھیں جان دے کر جان لینے پر آمادہ کرتے ہیں، ان کے پاس دوسروں کو متاثر کرنے کی زبردست اور غیر معمولی قوت ضرور ھوگی۔
نیز اس حقیقت سے بھی مفر ممکن نھیں کہ جس مذھبی اور انسانی جذبہ نے یھاں سرینگر میں چند افراد نے خود کو آگ میں کود پڑنے پر آمادہ کیا، تاکہ ایک غیر مسلم دوشیزہ کی جان بچ جائے، اسی جذبے کے غلط استعمال کا شاخسانہ ہے کہ پاکستان، عراق اور دیگر ممالک میں پے در پے خودکش حملے ھو رھے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ان دھماکوں کے پسِ منظر اور اصل محرکات کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ جیسا کہ عام طور پر کھا جا تا ہے کہ یہ دھشت گردی چند مٹھی بھر سر پھرے لوگوں کا کام ہے اور بس! اس طرح کی سوچ خود فریبی کے مترادف ہے۔ عالمی سطح پر دھشت گردی کا عفریت باضابطہ کسی نہ کسی فکری پناہ گاہ میں ضرور رھتا ھوگا۔ جس کی غذا کسی نظریاتی چولھے سے پکا کر آتی ھوگی۔ کسی کی جان دنیا کی لالچ میں لینا ایک عمومی بات ہے، لیکن اس دنیاوی زندگی سے بالا تر کوئی ’’مقدس مقصد‘‘ ھی ھوسکتا ہے، جو ایک فرد کو اپنی جان دینے کے لئے آمادہ کرے اور جب تک ایک فرد کو یہ باور نہ کرایا جائے کہ وہ اپنی اس فانی اور دنیاوی زندگی کو تج کر اخروی اور ابدی زندگی حاصل کر لے۔ نیز رغبتوں اور میلانات سے بھرپور اس دنیاوی زندگی کو وہ مفت میں کیوں گنوائے۔ جن قرآنی آیات کو پڑھ کر ھمارے یھاں اب بھی لوگ کسی دوسرے مذھب کی خاتون کی زندگی اپنے رب سے مانگتے ہیں، انھی آیات کی تلاوت کرکے وھاں دسیوں بے گناہ افراد کو قتل کر دیا جاتا ہے اور اس قسم کے انتھاء پسند حلقوں میں ان سانحوں سے خوشی کی زیریں لھر دوڑتی ہے، جبکہ یھاں پورا علاقہ ایک غیر مسلم لڑکی کی موت سے غم انگیز ماحول میں ڈھوب جاتا ہے۔
بعض دفعہ دس بارہ سال کے کم سن بچوں کو بھی ایسے انسانیت سوز اقدامات انجام دینے سے قبل دھر لیا گیا۔ ایسے نافھم بچے کہ جن کے ناپختہ شعور کا پودا کسی بھی سمت موڑا جا سکتا ہے، کیونکر خودبخود اس خطرناک کام کے لئے آمادہ ھوسکتے ہیں۔ جس سے یہ بات ثابت ھو جاتی ہے کہ کوئی بدخصال فرد یا جماعت ہے کہ جو ان خالی الذھن بچوں کو ورغلانے میں ماھر ھوتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ کم سن بچے اور نوجوان بھی ھمدردی کے حقدار ہیں اور انھیں بھلا پھسلا کر مرنے مارنے کے لئے تیار کرنا بذاتِ خود ایک ظلم ہے کہ جس کا اولین شکار یھی نوجوان اور بچے ھوتے ہیں۔
البتہ اصل مجرم تو ان کم سن خودکش افراد کے وہ مربی و مرشد ہیں، جو اپنے اوچھے مفادات حاصل کرنے کے لئے انھیں بطور ذریعہ استعمال کرتے ہیں۔ اسی دلیل کی بنیاد پر کھا جا سکتا ہے کہ دھشت گردی تب تک ختم نھیں ھوسکتی ہے، جب تک دھشت گردوں کو ختم نہ کیا جائے اور دھشت گردوں کو اس وقت تک ختم کرنا ناممکن ہے، جب تک ان افراد کے گریباں پر ھاتھ نہ ڈالا جائے جو سادہ لوح افراد کو دھشت گرد بنانے میں کلیدی رول ادا کرتے ہیں۔ ان دھشت گرد ساز افراد کو نیست و نابود کرنے کا ایک موثر طریقہ کار یہ ہے کہ اس فکر و سوچ اور ذھنیت کے خلاف مذھبی، معاشرتی اور نظریاتی سطح پر محاذ قائم کیا جائے۔
یھی مخصوص ذہنیت ہے، جو ایک شخص کو اپنے تئیں پکا اور سچا مسلمان اور دیگر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو مرتد و کافر گرداننے پر اکساتا ہے۔ دوسری جانب مھجور نگر میں ظاھر ھونے والے خالص انسانی جذبے کی حفاظت اور تقویت کے لئے ھر فرد کو فعال کردار ادا کرنا ھوگا۔ محبت کا یھی جذبہ ہے کہ جس سے نفرت کے سوداگروں کو شکست فاش دی جا سکتی ہے اور یہ پیغام عام کرنے کے لئے کوئی بھی دقیقہ فروگزاشت نھیں کرنا چاھئے کہ
خدا کے بندے تو ہیں ھزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ھوگا۔ اقبالؒ
تحریر: فدا حسین بالھامی

Add comment


Security code
Refresh