www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

804023
آج کل جو امریکی جنرلز اور ان کے امریکی ساتھیوں کے بیانات اور اسی طرح خلیج فارس میں امریکی فوجیوں اور جنگی بیڑوں کی بھیڑ پر توجہ دے رھا ھوگا اسے یہ گمان ھو گیا ھوگا کہ ایران پر جلد ھی حملہ ھو سکتا ہے اور اسے یہ بھی اندازہ ھوگا کہ ایران کو خطرے کا احساس ہے اور وہ اس طرح کے ممکنہ خطروں کا مقابلہ کرنے کی تیاری کر چکا ہے لیکن حقیقت میں ایران پراس طرح کا کیاکوئی حملہ ھو سکتا ہے؟
یہ ایک قابل بحث موضوع ہے۔ سب سے پہلے کچھ نکات پر توجہ دیں:
پہلا: اسرائیلی خفیہ ایجنسی سے متعلق ویب سایٹ دبکا نے بتایا کہ گزشتہ اتوار کی شام امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے دوست، نتن یاھو کے درمیان ٹیلیفونی گفتگو، ایران کے خلاف فوجی حملے پر مرکوز رھی ہے۔
دوسرا: امریکا کے بڑے بڑے جنرلز، فوجی حکام، فضائیہ کے سربراہ اور امریکی فوج کے سربراہ، مسلسل تل ابیب کا سفر کر رھے ہیں اور اپنے اسرائیلی ھم منصبوں سے گفتگو کر رھے ہیں، جو حقیقت میں ایران کے خلاف کسی آنے والی جنگ کی تیاری سے متعلق ھو سکتی ہے۔
تیسرا: خلیج فارس کے ممالک کے سینئیر فوجی حکام سے ملاقات کے لئے اسرائیلی فوج کے عھدیداروں کا ایک وفد واشنگٹن گیا ہے۔ خاص طور پر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے فوجی عھدیداروں سے گفتکو کرنے، اس دوران عدم جارحیت معاھدے پر دستخط ھوں گے اور ایران کے خلاف کسی بھی طرح کی جنگ میں کرداروں کی تقسیم بھی ھوگی جس میں اسرائیلی جنگی طیاروں اور فوجی ائیربیس دینا بھی شامل ہے۔
چوتھا: امریکا کا بڑا جنگی بیڑا ابراھم لنکن آبنائے ھرمز سے گزرتے ھوئے خلیج فارس پھنچ گیا ہے۔
امریکی اور اسرائیلی حکام نے اپنی عادت کے مطابق کھا ہے کہ یہ سب کچھ اس لئے ھو رھا ہے کیونکہ ایران، اسرائیلی مفادات پر حملے کا منصوبہ تیار کر رھا ہے تاکہ دمشق کے نزدیک ایرانی اور شامی اھداف پر اسرائیل کے راکٹ حملوں کا انتقام لیا جا سکے۔
رای الیوم،عبد الباری عطوان

Add comment


Security code
Refresh