آج کل جو امریکی جنرلز اور ان کے امریکی ساتھیوں کے بیانات اور اسی طرح خلیج فارس میں امریکی فوجیوں اور جنگی بیڑوں کی بھیڑ پر توجہ دے رھا ھوگا اسے یہ گمان ھو گیا ھوگا کہ ایران پر جلد ھی حملہ ھو سکتا ہے اور اسے یہ بھی اندازہ ھوگا کہ ایران کو خطرے کا احساس ہے اور وہ اس طرح کے ممکنہ خطروں کا مقابلہ کرنے کی تیاری کر چکا ہے لیکن حقیقت میں ایران پراس طرح کا کیاکوئی حملہ ھو سکتا ہے؟
یہ ایک قابل بحث موضوع ہے۔ سب سے پہلے کچھ نکات پر توجہ دیں:
پہلا: اسرائیلی خفیہ ایجنسی سے متعلق ویب سایٹ دبکا نے بتایا کہ گزشتہ اتوار کی شام امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے دوست، نتن یاھو کے درمیان ٹیلیفونی گفتگو، ایران کے خلاف فوجی حملے پر مرکوز رھی ہے۔
دوسرا: امریکا کے بڑے بڑے جنرلز، فوجی حکام، فضائیہ کے سربراہ اور امریکی فوج کے سربراہ، مسلسل تل ابیب کا سفر کر رھے ہیں اور اپنے اسرائیلی ھم منصبوں سے گفتگو کر رھے ہیں، جو حقیقت میں ایران کے خلاف کسی آنے والی جنگ کی تیاری سے متعلق ھو سکتی ہے۔
تیسرا: خلیج فارس کے ممالک کے سینئیر فوجی حکام سے ملاقات کے لئے اسرائیلی فوج کے عھدیداروں کا ایک وفد واشنگٹن گیا ہے۔ خاص طور پر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے فوجی عھدیداروں سے گفتکو کرنے، اس دوران عدم جارحیت معاھدے پر دستخط ھوں گے اور ایران کے خلاف کسی بھی طرح کی جنگ میں کرداروں کی تقسیم بھی ھوگی جس میں اسرائیلی جنگی طیاروں اور فوجی ائیربیس دینا بھی شامل ہے۔
چوتھا: امریکا کا بڑا جنگی بیڑا ابراھم لنکن آبنائے ھرمز سے گزرتے ھوئے خلیج فارس پھنچ گیا ہے۔
امریکی اور اسرائیلی حکام نے اپنی عادت کے مطابق کھا ہے کہ یہ سب کچھ اس لئے ھو رھا ہے کیونکہ ایران، اسرائیلی مفادات پر حملے کا منصوبہ تیار کر رھا ہے تاکہ دمشق کے نزدیک ایرانی اور شامی اھداف پر اسرائیل کے راکٹ حملوں کا انتقام لیا جا سکے۔
رای الیوم،عبد الباری عطوان
ایران کے خلاف امریکا و اسرائیل کی ممکنہ جنگ اور اس کے نتائج
- Details
- Written by admin
- Category: اھم خبریں
- Hits: 290