www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

465469
امریکی وزارت جنگ نے عراق میں اپنی چھاونی عین الاسد پر ایران کے میزائل حملے سے ھونے والے نقصانات کے بارے میں آھستہ آھستہ اعترافات کا سلسلہ جاری رکھتے ھوئے اب کھا ہے کہ اس حملے میں اس کے 50 فوجیوں کو دماغی چوٹ پھنچی ہے۔
پینٹاگن کے ترجمان تھامس کیمبل نے بدھ کی صبح ایک بیان جاری کرکے بتایا کہ آج تک 50 امریکی فوجیوں کو دماغی چوٹ پھنچنے کا پتہ لگایا جا چکا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ان 50 امریکی فوجیوں میں سے 31 کا عراق میں علاج کرایا گیا جس کے بعد وہ اپنی ڈیوٹی پر واپس چلے گئے۔
انھوں نے بتایا کہ باقی 18 فوجیوں کے مزید علاج کے لئے جرمنی پھنچا دیا گیا ہے جبکہ ایک کو کویت پھنچایا گیا جو علاج کے بعد اپنی ڈیوٹی پر لوٹ گیا۔
امریکا کی دھشت گرد فوج نے گزشتہ 3 جنوری کو بغداد ھوائی اڈے پر سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی رضاکار فورس کے ڈپٹی کمانڈر ابو مھدی المھندس کو ان کے ساتھیوں کے ساتھ شھید کر دیا تھا۔
ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے 8 جنوری کو اس دھشت گردانہ حملے کا جواب دیتے ھوئے عراق میں امریکا کی عین الاسد چھاونی اور اربیل میں ایک امریکی ٹھکانے پر میزائل حملے کئے تھے۔
ایران نے کھا تھا کہ اس حملے میں تقریبا سو امریکی فوجی ھلاک ھوئے تھے تاھم امریکا نے کھا تھا کہ اس میزائل حملے میں اس کا کوئی فوجی زخمی تک نھیں ھوا۔
کچھ دنوں بعد پینٹاگن نے یہ اعتراف کیا کہ 11 فوجیوں کو میزائل حملے کی وجہ سے علاج کے لئے عراق سے کویت منتقل کیا گیا ہے۔
اس کے بعد اب منگل کے روز امریکا نے پھر اعتراف کیا کہ ان 11 فوجیوں کے علاوہ بھی کئی فوجی زخمی ھوئے ہیں۔
اس کے بعد امریکا کی وزارت دفاع نے بتایا کہ ایران کے میزائل حملے میں 34 امریکی فوجی زخمی ھوئے اور اب پینٹاگن کا کھنا ہے کہ ایران کے حملے سے متاثر ھونے والے فوجیوں کی تعداد 50 ہے۔
کچھ خبروں میں بتایا گیا ہے کہ عراق میں امریکی چھاونی عین الاسد پر ایران کے میزائل حملوں سے ھلاک ھونے والے فوجیوں کو افغانستان منتقل کر دیا گیا تاکہ یہ دکھانے کی کوشش کی جائے کہ یہ فوجی افغانستان میں ھلاک ھوئے اور اس طرح امریکا بے عزتی سے بچنے کی کوشش کر رھا ہے۔
دوسری جانب افغانستان میں امریکا کے ایکی جاسوس طیارے کے گرنے کی بھی خبر موصول ھو رھی ہے جس کے بارے میں کچھ نکات قابل توجہ ہیں۔ پھلی بات تو یہ ہے کہ اس حادثے کے فورا بعد ھی یہ اعلان کر دیا گیا کہ تقریبا سو افراد ھلاک ھوئے اور کچھ میڈیا ذرائع نے بھی اس کی تائید کر دی جبکہ اس طرح کے واقعات میں فوری طور پر شناخت نھیں ھو پاتی اور ھلاکتوں کی تعداد کا اعلان بعد میں کیا جاتا ہے لیکن اس بار ایسا نھیں ھوا۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس طیارے کے گرنے کے بعد طالبان نے فوری بیان جاری کرکے حملے کی ذمہ داری قبول کر لی۔ یھاں پر یہ بات بھی مشکوک نظر آتی ہے کیونکہ طالبان کو پتہ ہے کہ اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کے کیا نتائج ھو سکتے ہیں۔ یہ اس صورت میں ھی ممکن ھوگا جب اس کو یقین ھوگا کہ امریکا سے جو معاھدہ ہے اس کے تحت اس کو کسی بھی طرح کا خطرہ لاحق نھيں ھوگا یا دوسری حالت میں صرف جھوٹ کا پلندہ ھی ہے۔
تجزیہ نگاروں کا کھنا ہے کہ عین الاسد میں ایرانی میزائل حملوں میں ھلاک ھونے والے فوجیوں کی افغانستان منتقلی اور بعد میں فوجی طیارے کے حادثے کی آڑ میں ھلاکتوں کا اعلان کرکے امریکا اپنی بڑی بے عزتی سے بچنے کی کوشش کر رھا ہے۔ امریکی حکام یہ دکھانے کی کوشش کر رھے ہیں تاکہ امریکی عوام یہ نہ سمجھ سکیں کہ عین الاسد پر حملے کا کتنا نقصان ھوا ۔

Add comment


Security code
Refresh