ایران کے ایٹمی پروگرام میں تعاون کی چھوٹ ختم کیے جانے پر چار جمع ایک گروپ کے مشرقی اور مغربی ملکوں نے امریکہ پر کڑی نکتہ چینی کی ہے۔ روس اور چین کی جانب سے امریکہ کے اس غیر قانونی اقدام کی مخالفت کے بعد یورپی ٹرائیکا نے بھی واشنگٹن کے اس فیصلے کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔
یورپی ٹرائیکا کے رکن ممالک برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے کہا ہے کہ ایٹمی معاھدے کے تحت ایران کے ایٹمی پروگرام کو حاصل چھوٹ ختم کرنے کا امریکی فیصلہ انتھائی افسوسناک ہے۔
یورپی ٹرائیکا کے وزرائے خارجہ اور یورپی یونین کے امور خارجہ کے انچارج کے جاری کردہ مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ھمیں امریکہ کے اس فیصلے پر گہرا افسوس ہے۔
بیان میں یہ بات زور دے کر کہی گئی ہے کہ اقوام متحدہ کی قرارداد بائیس اکتیس کے تحت ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے بعض منصوبوں کی اجازت دی گئی ہے کیونکہ یہ منصوبے ایٹمی عدم پھیلاؤ کی ضمانت فراھم کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی برادری کو ایران کی ایٹمی سرگرمیوں کے تعلق سے اطینمان دلاتے ہیں۔
بیان پر دستخط کرنے والے ایٹمی معاھدے کے یورپی اراکین نے ایک بار پھر ایران کے ساتھ ھونے والے ایٹمی معاھدے کو ایٹمی عدم پھیلاؤ کے تعلق سے ایک اھم دستاویز اور ایران کے ایٹمی پروگرام کے پرامن ھونے کا پتہ لگانے کا بھترین اور واحد راستہ قرار دیا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے بدھ کے روز اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کو حاصل چھوٹ اب ختم کر دی گئی ہے اور دو ایرانی ایٹمی سائنسدانوں کے نام پابندیوں کی فھرست میں شامل کیے جارھے ہیں۔
امریکہ کا یہ اقدام جامع ایٹمی معاھدے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پاس کردہ قرارداد بائیس اکتس کے سراسر منافی ہے۔
یورپی یونین کے خارجہ پالیسی چیف جوزف بورل نے بھی جمعرات کے روز اپنے ایک بیان میں امریکہ کے اس اقدام پر کڑی نکتہ چینی کرتے ھوئے کہا تھا کہ اس اقدام سے ایران کی ایٹمی سرگرمیوں کی نگرانی کا عمل دشوار ھو جائے گا۔
جوزف بورل نے ایٹمی معاھدے کو ایران کی ایٹمی سرگرمیوں کی جانچ پڑتال اور اس کے بارے میں اطمینان حاصل کرنے کا واحد راستہ قرار دیتے ھوئے امریکہ کے فیصلے پر اظھار افسوس کیا۔
ایران کے ایٹمی پروگرام کو حاصل چھوٹ، روسی، چینی اور یورپی کمپنیوں کو اراک کے ایٹمی ری ایکٹر کی تعمیر نوع، تھران کے تحقیقاتی ری ایکٹر کے لیے افزودہ یورینیئم کی فراھمی اور ایران میں تیار ھونے والے فاضل ایٹمی ایندھن کی بیرون ملک منتقلی جیسے معاملات میں تھران کے ساتھ تعاون کا موقع فراھم کرتی ہے۔
حکومت امریکہ نے مئی دوھزار اٹھارہ میں ایران کے ساتھ ھونے والے ایٹمی معاھدے سے یکطرفہ طور پر علیحدگی اختیار کرنے کے بعد، تھران کے خلاف اقتصادی، تجارتی اور سیاسی میدانوں سمیت تمام شعبوں میں سخت ترین پابندیوں کا آغاز کیا تھا اور وہ اب بھی ایران کے ساتھ تعاون کرنے والے غیر ملکوں شھریوں اور کمپینوں کے خلاف پابندیاں عائد کر رھا ہے۔
امریکی وزارت خارجہ میں ایران ایکشن گروپ کے سرغنہ برائن ھک کے مطابق، اقتصادی دباؤ، سفارتی تنھائی اور علاقائی اثر و رسوخ کا خاتمہ ایران کے خلاف ھماری پالیسی کا اھم حصہ ہے۔
سیاسی مبصرین اور عالمی اداروں کے مطابق ایران کے خلاف تاریخ کی بدترین کہی جانے والی پابندیوں کا اثر زائل ھو چکا ہے اور اب واشنگٹن کے پاس ایران کے خلاف پابندیوں کے حوالے سے کوئی پتہ باقی نھیں ہے۔