www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

840593
ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم میں ایک اجلاس سے خطاب کرتے ھوئے ارب پتی معروف امریکی شخصیت جارج سوروس نے کھا کہ دنیا تاریخ کے ایک ایسے مقام پر کھڑی ہے، جھاں جمھوری معاشروں اور ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنجز سے انسانی تھذیب کے وجود کو خطرہ لاحق ہے۔
انھوں نے کھا کہ قوم پرستی کھلے معاشرے کی سب سے "بڑی دشمن" ہے۔ سوروس ایک بھتر جمھوری نظام کے لیے ملکوں کے درمیان وسیع تر اشتراک کے حامی ہیں۔ وہ 40 سال سے دنیا کے 120 ملکوں میں فلاحی کام کرنے والی تنظیم اوپن سوسائٹی فاونڈیشنز کے سربراہ ہیں۔
انھوں نے کھا کہ عالمی امن کو سب سے بڑا اور خوفناک دھچکا انڈیا میں لگا ہے، جھاں جمھوری طریقے سے منتخب نریندر مودی ایک ھندو قوم پرست مملکت ق‍ائم کر رھے ہیں، جنھوں نے مسلم آبادی والے (انڈیا کے زیر انتظام) کشمیر کو اجتماعی طور پر معتوب کر رکھا ہے اور جو ملک کے لاکھوں مسلمانوں کو ان کی شھریت سے محروم کرنے کی طرف گامزن ہیں۔ انھوں نے کھا کہ یہ تاریخ کی ایک ایسی منزل ہے، جھاں ان مسائل سے انسانی تھذیب کا وجود خطرے میں ہے۔
انھوں نے کھا کہ اس بات کے امکان کم ہیں کہ سیاسی رھنماء ان چیلنجز کا سامنا کرنے میں عوام کی تمناؤں پر پورے اتریں گے، کیونکہ یہ سیاسی رھنما موجودہ صورتحال کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کر رھے ہیں۔ یھی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں مایوسی کی فضا بنی ھوئی ہے۔
ان کا یہ بھی کھنا تھا کہ جمھوری معاشروں کی اپنی خامیوں کے باوجود ان کے بچ جانے کی امید ہے، کیونکہ قوم پرست اور آمرانہ نظام کی بھی اپنی کمزوریاں ہیں۔ آمرانہ نظام کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ جب وہ کامیاب ھو جاتے ہیں تو انھیں یہ نھیں معلوم ھوتا کہ انھیں کب اور کس طرح جبر پر روک لگانی ہے۔ ان کے نظام میں چیک اور بیلنس کی کمی ھوتی ہے اور یھی وہ طریقہ ہے، جس سے جمھوریت کو استحکام حاصل ھوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں دبے ھوئے لوگ آمریت کے خلاف کھڑے ھو جاتے ہیں۔ آج ھم یہ پوری دنیا میں دیکھ رھے ہیں۔
جارج سوروس نے ماحولیاتی صورتحال اور عالمی بے چینی کا ذکر کرتے ھوئے کھا کہ یہ برس اور آئندہ چند برس صرف امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چین کے صدر شی جن پنگ کے ھی مستقبل کا نھیں بلکہ پوری دنیا کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے انھوں نے کھا ڈونلڈ ٹرمپ ایک نوسر باز اور انتھاء کے نرگسیت پسند شخص ہیں، جو آئینی حدود کی خلاف ورزیاں کر رھے ہیں اور چینی صدر ٹیکنالوجی کے ذریعے لوگوں کی زندگیوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔ ان کا کھنا تھا کہ اگر یہ دونوں شخص اقتدار میں نہ ھوتے تو دنیا ایک بھتر جگہ ھوتی۔
جارج سورس نے کھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیچ دینے کے لیے تیار ہیں اور وہ اگلے انتخابات میں کامیابی کے لیے سب کچھ کریں گے۔ جارج سوروس نے آدھا سچ بولا یا شاید وہ اتنا ھی کہہ سکتے تھے۔ یہ وہ آواز ہے، جو عرصہ دراز سے اسلامی دنیا کے ممالک اٹھا رھے تھے، تاھم جب جارج سوروس نے ڈیویس کے اقتصادی فورم پر یہ آواز اٹھائی تو پوری دنیا میں اس کی گونچ سنائی دی۔
جارج سوروس کو امریکی صدر کے ساتھ ساتھ اس ملک پر براجمان اسٹبلشمنٹ اور مفاد پرست ٹولے پر بھی بات کرنی چاھیئے تھی، جو جاپان، ویتنام، افغانستان، عراق، شام، لیبیا، یمن اور فلسطین میں لاکھوں انسانوں کے قتل کا باعث بنی ہے۔ انھیں اسرائیلی ریاست پر بھی بات کرنی چاھیئے تھی، جس کے مظالم کے سبب ھزاروں فلسطینی بے جرم و خطا قتل ھوئے اور لاکھوں فلسطینی گذشتہ ستر سے زائد برسوں سے بے گھر ہیں۔ انھیں کھنا چاھیئے تھا کہ اسرائیلی اکائی مشرق وسطیٰ میں بے چینی کی اصل وجہ ہے، یھی فساد کی اصل جڑ ہے، جس کے تحفظ کے لیے امریکا اس خطے میں موجود ہے۔ اس کے باوجود ھمیں جارج سوروس کی حقیقت پسندی کی داد دینی چاھیئے، جنھوں نے ایک سرمایہ دار ھونے کے باوجود بحیثیت انسان انسانیت کے مسائل کے بارے میں سوچا اور اس پر اپنا تجزیہ یا موقف پیش کیا۔
سوروس کا اسرائیل کے خلاف نہ بولنا شاید اس قاتلانہ حملہ کی وجہ سے ھو، جو ان پر پر کیا گیا، جب ان سے امریکی اخبار نیویارکر نے اسرائیل کے بارے سوال کیا تو سوروس نے کھا کہ میں یھودیوں کی قومیت کو تسلیم کرتا ھوں، تاھم میں اس بارے میں کچھ کرنا نھیں چاھتا۔
2016ء میں ان کی تنظیم کی ھیک ھونے والی ای میلوں سے پتہ چلا کہ سوروس کی تنظیم کے اھداف میں اسرائیل کی نسل پرستانہ اور غیر جمھوری اقدامات کو عالمی فورمز پر چیلنج کرنا بھی شامل ہے۔ اپنے ایک آرٹیکل میں سوروس نے لکھا کہ مجھے یقین ہے کہ اسرائیل کے خلاف آنے والا ردعمل اس ملک کی پالیسیوں کی وجہ سے ہے اور یھودی کمیونٹی کے بارے میں رویہ پرو اسرائیل لابی کے اثرات ہیں، جو وہ مخالف نظریات کو دبانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ ایک تقریب میں سورس نے کھا کہ تشدد اور جارحیت کا شکار ھونے والے آج جارحیت کرنے والے بن چکے ہیں۔ ان کی اس بات پر کئی ایک افراد تقریب چھوڑ کر چلے گئے۔ سوروس اسرائیلی لابی کی جانب سے اکثر قانونی اور صحافتی اقدامات کا سامنا کرتے رھتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ وہ خود یھودی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، جو ھنگری سے برطانیہ منتقل ھوا۔
سوروس استعماری اور استکباری معاشرے میں اس آواز کی نمائندگی کرتے ہیں، جو فرعونوں کے آشیانے میں بیٹھ کر نہ صرف جرات مندی سے ان پر نقد کرتے ہیں، بلکہ اس نقد کے منفی اثرات کا مقابلہ بھی کرتے ہیں، ایسے انسانوں کے بارے جان کر کم از کم میرا تو انسانیت اور کار پیغمبری کے ثمرات پر یقین بڑھتا اور پختہ ھوتا ہے۔
تحریر: سید اسد عباس

Add comment


Security code
Refresh