فروشگاه اینترنتی هندیا بوتیک
آج: Thursday, 25 September 2025

www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

608415
مغربی ایشیا میں امریکی فوجی مداخلت کی تاریخ تقریباً 60 سال پھلے شروع ھوتی ہے۔ امریکہ کے 34 ویں صدر ڈوائٹ آئزن ھاور نے اپنے دوسرے صدارتی دورے میں نئی ڈاکٹرائن کا اعلان کیا جسے کانگریس میں بھی منظور کر لیا گیا۔ یہ نئی حکمت عملی جو "آئزن ھاور ڈاکٹرائن" کے نام سے معروف ھوئی دنیا کے مختلف حصوں میں امریکہ کی حامی حکومتوں کی پشت پناھی کیلئے فوجی طاقت کے استعمال پر مبنی تھی۔
البتہ اس سے پہلے سابق امریکی صدر ٹرومین کے دور میں امریکہ نے یورپ میں سابق سوویت یونین کے اثرورسوخ کو روکنے کیلئے وھاں فوجی موجودگی قائم کر رکھی تھی۔ آئزن ھاور کی جانب سے نئی ڈاکٹرائن کے اعلان کے بعد امریکہ نے سرکاری سطح پر 1958ء میں لبنان میں فوج بھیج دی اور یوں مغربی ایشیا میں امریکی فوجی موجودگی کا آغاز ھو گیا۔
لبنان میں فوج بھیجنے کیلئے امریکہ نے وھاں کی عیسائی حکومت کے تحفظ اور حمایت کا بھانہ بنایا۔ آئزن ھاور نے اس خطے میں امریکہ کی فوجی موجودگی کو "پینڈورا باکس" نام دیا تھا۔ آج تک پیش آنے والے حالات سے ثابت ھوتا ہے کہ ان کی پیشن گوئی اور تجزیہ درست تھا۔
البتہ مغربی ایشیائی خطے میں امریکہ کی فوجی مداخلت کا سلسلہ آئزن ھاور ڈاکٹرائن کے سرکاری اعلان سے کافی عرصہ پہلے شروع ھو چکا تھا۔ 1953ء میں آئزن ھاور کے پہلے صدارتی دورے میں ایران میں عوامی مینڈیٹ کی حامل ڈاکٹر مصدق کی حکومت کے خلاف بغاوت درحقیقت امریکہ اور برطانیہ کی ملی بھگت سے انجام پائی۔ یہ اقدام تاریخ میں بیرونی مداخلت کا معروف ترین نمونہ جانا جاتا ہے۔
دوسری عالمی جنگ سے لے کر آج تک امریکہ نے مغربی ایشیا خطے میں تقریباً 25 مرتبہ فوجی اور سکیورٹی مداخلت انجام دی ہے۔ یعنی تقریباً ھر تین برس میں ایک بار مداخلت کی ہے۔
اھم نکتہ یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ امریکہ کی مداخلت نہ صرف کم نھیں ھوئی بلکہ اس کا دائرہ وسیع سے وسیع تر، شدید تر اور زیادہ مالی اور جانی نقصان کے ھمراہ ھوتا چلا گیا ہے۔ نائن الیون واقعے کے بھانے افغانستان اور پھر عراق پر فوجی قبضہ فوجی مداخلت پر مبنی ان اقدامات میں سے واضح ترین مصداق ہیں۔ اکثر سیاسی ماھرین حتی امریکی تجزیہ کاروں نے انھیں "نہ ختم ھونے والی جنگوں" کا نام دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مغربی ایشیا خطے میں امریکہ کی تمام تر فوجی مداخلتیں ڈکٹیٹر اور آمر حکمرانوں سے مقابلے کے عنوان سے انجام پائی ہیں۔
امریکی حکمرانوں نے ھمیشہ ھر جنگ شروع کرنے سے پہلے روشن مستقبل، ملک کی تقدیر عوام کے سپرد کرنے، ظلم و ستم کا شکار عوام کو آزادی اور انصاف فراھم کرنے جیسے کھوکھلے وعدوں کا سھارا لیا ہے۔ لیکن ھمیشہ امریکہ کی فوجی جارحیتوں کا نتیجہ اس ملک میں بدامنی اور انارکی میں اضافے، عام شھریوں کے قتل عام، دھشت گرد گروھوں کے فروغ اور شدت پسندی میں اضافے کی صورت میں ظاھر ھوا ہے۔ وھی عوام جنھیں آزادی اور انصاف دلوانے کے وعدے کئے گئے تھے بے دردی سے قتل عام کا شکار ھوئے ہیں۔ یہ گولوں اور بموں کے ذریعے امریکی جمھوریت کے فروغ کا نتیجہ ہے۔ گذشتہ دو عشروں سے امریکہ کے تھنک ٹینکس اور میڈیا نے فوجی جارحیت کے بعد عوامی نظام حکومت تشکیل پانے پر مبنی امریکی حکمرانوں کے نظریے کی توجیھات پیش کرتے ھوئے اس کی نظریاتی بنیادیں فراھم کی ہیں۔
افغانستان اور عراق میں امریکہ کے فوجی اقدامات نے واضح طور پر ثابت کر دیا ہے کہ یہ نعرے، وعدے اور نظریے محض فریب اور دھوکہ تھے اور خالص حماقت تھی۔ بمباری اور تباھی پھیلانے کے ذریعے آزاد قوم اور ریاست کا قیام ایک سفید جھوٹ ہے۔
اب تک امریکہ کی ان تمام جنگوں کے اخراجات وہ بڑی بڑی اسلحہ ساز کمپنیاں ادا کرتی آئی ہیں جن کی بقا اور منفعت انھی جنگوں پر منحصر تھی۔ یہ کمپنیاں درحقیقت موت کی سوداگر ہیں۔ مغربی ایشیا خطے میں بدامنی اور سکیورٹی بحران ایک طرف امریکہ کی مختلف کمپنیوں کے حصص میں گراوٹ کا باعث بنا ہے جبکہ دوسری طرف بڑی بڑی امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں کے حصص چوٹی پر جا پھنچے ہیں۔ ان کمپنیوں میں نارتروپ گرومین، لاک ھیڈ مارٹن، ایل تھری ھیریس ٹیکنالوجیز، ریتھیون، ھنٹنگٹن انگلز، ٹرانس ڈائم گروپ اور جنرل ڈائنامیکس کا نام قابل ذکر ہے۔
فوجی صنعتی کمپلکسز کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کی الیکشن مھم کے اخراجات فراھم کرنا بھی ایک انتھائی دلچسپ اور تفصیلی ٹاپک ہے جس کیلئے علیحدہ تحریر کی ضرورت ہے۔ مذکورہ بالا سات امریکی اسلحہ ساز کمپنیاں 400 ارب ڈالر کے اثاثے رکھتی ہیں اور پینٹاگون کی شراکت سے خلیج عرب ریاستوں اور دیگر ممالک کو اسلحہ سپلائی کرنے والی سب سے بڑی کمپنیاں شمار ھوتی ہیں۔ میزائل، جنگی طیارے، ریڈار وغیرہ موت کی سوداگر ان کمپنیوں کی تازہ ترین مصنوعات شمار کی جاتی ہیں۔ اسلحہ کی ساخت اور فروخت کیلئے ایک مفروضہ اور نقلی دشمن کا ھونا ضروری ہے۔
اگر دشمن نہ ھو تو خطے میں موجود دودھ دینے والی گائیوں کو کیسے دوھا جائے؟ خطے میں اپنے فوجی اڈوں کے خاتمے اور فوجی موجودگی ختم کرنے سے متعلق پائی جانے والی رائے عاملہ کے سامنے امریکی حکمرانوں کی مزاحمت درحقیقت انھی وجوھات کی بنا پر ہے۔
امریکی حکام یہ دعوی کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ عراقی قوم اور حکومت کی حفاظت کیلئے اس ملک میں موجود ہیں۔ لیکن اب جب عراقی حکومت اور عوام دونوں نے امریکہ سے فوجی انخلا کا بھرپور مطالبہ کر دیا ہے تو امریکی حکمران انتھائی بے شرمی سے یہ کھتے نظر آتے ہیں کہ وہ عراق چھوڑ کر نھیں جائیں گے۔ جمعہ 24 جنوری کے دن عراق میں امریکی فوجی انخلا کا بل منظور کرنے پر پارلیمنٹ کی حمایت میں ملین مارچ کا انعقاد ھوا۔ یہ ملین مارچ درحقیقت ملک سے امریکہ کے فوجی انخلا کے بارے میں ایک عوامی ریفرنڈم تھا۔ عراقی عوام امریکہ کو نہ صرف نجات دھندہ تصور نھیں کرتے بلکہ اس سے شدید نفرت رکھتے ہیں۔ یہ ملین مارچ دھشت گرد امریکی فوج کو عراقی عوام کی اتمام حجت تھی۔ عراقی عوام ابھی ابوغریب جیل میں امریکی فوجیوں کے غیر انسانی اور مجرمانہ اقدامات کو نھیں بھولے۔
امریکہ جو اس بات کا دعویدار تھا کہ وہ عراقیوں کی درخواست پر اس ملک میں آیا ہے گذشتہ چند ھفتوں سے انتھائی گستاکی اور بدمعاشی سے عراقی پارلیمنٹ اور عوام کے سامنے ڈٹ کر کہہ رھا ہے کہ عراق سے باھر نھیں نکلے گا۔
عراقی قوم اور حکومت کے اس قانونی اور برحق مطالبے کے مقابلے میں امریکی حکمرانوں کا کھنا ہے کہ اگر وہ عراق سے باھر نکلتے ہیں تو داعش دوبارہ سرگرم عمل ھو جائے گی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ عراق میں داعش کا بیج خود امریکہ نے بویا تھا اور جب تک امریکہ شام اور عراق میں موجود ہے اس وقت تک داعش مکمل طور پر نابود نھیں ھو گی۔ داعش درحقیقت امریکہ کی جانب سے اپنی فوجی موجودگی کا جواز فراھم کرنے کیلئے ایک شیطانی ھتھکنڈہ ہے۔
جمعہ 24 جنوری کے روز امریکہ کے خلاف عراقی عوام کا ملین مارچ ایک قومی ریفرنڈم تھا اور اس کا نتیجہ تمام دنیا والوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اس بھرپور عوامی ریفرنڈم کے بعد عراق میں امریکہ کی فوجی موجودگی ایک نیا معنی و مفھوم رکھتی ہے۔ اب یہ فوجی موجودگی قبضے، غصب اور استعمار کے زمرے میں آتا ہے۔ امریکی حکمرانوں کیلئے عراقی عوام کا یہ واضح پیغام تھا کہ تمھیں عراق سے نکلنا ھو گا اور عمودی جانا ہے یا افقی یہ انتخاب آپ کا ہے۔
جب تک عراق میں امریکی موجودگی باقی رھے گی اس ملک میں سکون اور امن و امان پیدا نھیں ھو سکتا۔ امریکہ اس قدر گستاخ ھو گیا ہے کہ عراق میں ایران اور عراق کے دو اعلی سطحی فوجی کمانڈروں کی ٹارگٹ کلنگ کر چکا ہے۔ امریکہ کا یہ اقدام ظاھر کرتا ہے کہ اس کی نظر میں عراق کی خودمختاری اور خود اردیت ذرہ برابر اھمیت نھیں رکھتی۔ اس میں کوئی شک نھیں کہ عراقی عوام میں حالیہ بیداری کی لہر شھید قاسم سلیمانی اور شھید ابو مھدی المھندس کے پاکیزہ خون کی برکت سے ہے۔ ان پاکیزہ اور متقی افراد کا خون دنیا کے شقی ترین اور ظالم ترین شخص کے ہاتھوں بھایا گیا ہے۔
ایران اور عراق کے ان دو اعلی سطحی فوجی کمانڈروں کی ایک جگہ شھادت نے ایرانی اور عراقی قوموں کے درمیان ایک اٹوٹ اور گھرا تعلق قائم کر دیا ہے اور اب یہ نعرہ سننے میں آ رھا ہے کہ "ایران و العراق لا یمکن الفراق"۔ عراق کے ملین مارچ میں لگنے والا یہ نعرہ امریکی حکمرانوں کو عراقی عوام کا واضح پیغام ہے۔ اگر امریکی حکمران اس واضح پیغام کو نھیں سنتے تو یقیناً اس کے نتیجے میں ایک نئی صورتحال پیدا ھو گی۔ اس وقت گیند ٹرمپ کے کورٹ میں ہے اور اسے یہ حتمی فیصلہ کرنا ہے کہ عراقی عوام کا یہ پیغام سننا ہے یا کسی دوسری زبان میں ردعمل سے روبرو ھونا ہے۔
تحریر: محمد صرفی

Add comment


Security code
Refresh