www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

561331
سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر ملک کے پھلے اعلی سطحی عھدیدار ہیں جنھوں نے چند سال پھلے عراق سے سعودی سفیر واپس بلائے جانے کے بعد اس ملک کا دورہ کیا ہے۔ بظاھر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہ غیرمتوقع دورہ انتھائی جلدبازی میں انجام پایا ہے۔
سعودی وزیر خارجہ نے اپنے اس دورے میں عراق کیلئے نئے سعودی سفیر کی بھی تقرری کی ہے۔ انھوں نے اپنے دورے کے مقاصد بیان کرتے ھوئے کھا ہے کہ یہ دورہ دوطرفہ تعاون اور ھمکاری کو فروغ دینے کیلئے انجام پایا ہے۔
اسی طرح انھوں نے اعلان کیا کہ سعودی عرب داعش کے قبضے سے آزاد ھونے والے علاقوں کی سکیورٹی قائم کرنے کیلئے پوری طرح تیار ہے اور داعش کے خلاف جنگ میں عراق کی مدد کرنے کا بھی خواھاں ہے۔
عادل الجبیر نے کھا کہ اگر عراق بے طرفانہ پالیسی پر گامزن ھو جائے تو وہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی کا کردار بھی ادا کر سکتا ہے۔
سعودی وزیر خارجہ جو ضمنی طور پر خود کو عراق کے آزاد شدہ اور سنی نشین علاقوں کا سرپرست ظاھر کرنے کی کوشش کر رھے تھے ایسے وقت عراق آئے ہیں جب داعش واضح طور پر اپنی نابودی کے دھانے پر ہے۔
سب بخوبی آگاہ ہیں کہ تکفیری دھشت گرد گروہ داعش کی تشکیل سے اس کے حامی اور بانی ممالک کا مقصد عراق کی قانونی حکومت کا خاتمہ تھا۔
عراق میں داعش کی پرورش میں سعودی عرب اور ترکی نے انتھائی اھم کردار ادا کیا تھا۔ اس وقت عراق کی مسلح افواج اور عوامی رضاکار فورس (الحشد الشعبی) کی انتھک محنت اور جدوجھد کے نتیجے میں داعش آخری سانسیں لے رھی ہے اور عراق کی تین بڑی اقوام (شیعہ، سنی، کرد) میں اتحاد اور وحدت کا زمینہ فراھم ھو چکا ہے۔
خطے میں موجود تکفیری دھشت گرد گروہ اور وائٹ ھاوس میں ایک مشترکہ قدر پائی جاتی ہے اور وہ یہ کہ دونوں نھیں چاھتے عراق میں داعش کا خاتمہ عراقی حکومت کی طاقت میں اضافے پر منتج ھو۔ لھذا آل سعود رژیم کی جانب سے عراق واپس لوٹنے میں جلدبازی کی حقیقی وجہ عراق میں بچے کھچے دھشت گرد عناصر کو حتمی نابودی سے بچانا اور ان میں نئی روح پھونکنے کے علاوہ عراقی معاشرے میں قومی اور مذھبی فرقہ واریت کو فروغ دے کر قومی اتحاد کو ناممکن بنانا ہے۔
یھی وجہ ہے کہ سعودی وزیر خارجہ خود کو صرف داعش سے آزاد شدہ علاقوں کا سرپرست بنائے جانے کا مطالبہ کر رھے ہیں۔ ان سے پھلے عراق میں سابق سعودی سفیر السبھان صوبہ الانبار کی سرپرستی کا اظھار کیا کرتے تھے اور داعش کے قبضے سے آزادی کے بعد اس صوبے میں بسنے والے اھلسنت عراقی شھریوں کے بارے میں پریشان دکھائی دیتے تھے۔
السبھان واضح طور پر عراق کے اندرونی مسائل میں مداخلت کرتے اور داعش کے خلاف برسرپیکار عوامی رضاکار فورس حشد الشعبی کے خلاف زھر اگلتے رھتے تھے۔ انھیں اقدامات کے باعث عراق سے نکال دیا گیا۔
حالیہ دورے میں سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کو وائٹ ھاوس اور سی آئی اے کے سربراہ مائیک پمپیو کی جانب سے ایک اور اھم مشن بھی سونپا گیا ہے جو عراق میں ایران کے بڑھتے ھوئے اثرورسوخ کو روکنے پر مبنی ہے۔ لھذا ان کی جانب سے عراقی وزیراعظم کو بے طرفی کی دعوت دی گئی ہے اور اسے سعودی عرب اور عراق میں تعلقات کے فروغ کی شرط قرار دیا گیا ہے۔
آل سعود رژیم عراق کو ایران سے دور کرنے کا خواب دیکھ رھی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایران اور عراق میں تعلقات فطری بنیادوں پر استوار ہیں۔ سعودی حکومت عراق کو ایران سے دور کر کے اس کے سیاسی فیصلوں پر اثرانداز ھونا چاھتی ہے اور اس مقصد کیلئے سعودی وزیر خارجہ نے عراقی حکام کو داعش کے قبضے سے آزاد شدہ علاقوں کی تعمیر نو میں تعاون کرنے کا لالی پاپ بھی دیا ہے۔
سعودی حکام اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ آل سعود اور ترکی کے حمایت یافتہ تکفیری دھشت گرد عناصر کے مجرمانہ اقدامات کا نتیجہ عراقی عوام میں سعودی حکام سے شدید نفرت کی صورت میں ظاھر ھو رھا ہے جس کے باعث عراق میں سعودی عرب کی پوزیشن انتھائی کمزور ھو چکی ہے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سعودی حکام کے سامنے عراقی معاشرے میں وھابی اور تکفیری افکار کی ترویج کا صرف ایک ھی راستہ بچ گیا ہے اور وہ عراقی حکومت کو رشوت دینے کا راستہ ہے۔ لھذا سعودی وزیر خارجہ خود کو اھلسنت شھریوں کا نجات دھندہ ظاھر کر کے عراقی حکومت کو رشوت لینے پر راضی کر رھے ہیں تاکہ اس طرح اپنا کھویا ھوا اثرورسوخ دوبارہ واپس لوٹا سکیں اور عراق میں قومی اور مذھبی فرقہ واریت پر مبنی اپنا پراجیکٹ مکمل کر سکیں جو عراقی مسلح افواج اور عوامی رضاکار فورس حشد الشعبی کی جدوجھد کی بدولت نامکمل رہ گیا ہے۔ ان تمام اقدامات کا مقصد عراق میں سیاسی عدم استحکام کو فروغ دے کر موجودہ حکومت کی بنیادیں نابود کرنا ہے۔
سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر اچھی طرح جانتے ہیں کہ عراق میں داعش کے مکمل خاتمے کے بعد شام میں تکفیری دھشت گرد عناصر کی نابودی شروع ھو جائے گی اور اس کے بعد تکفیری دھشت گرد عناصر کے اصلی حامیوں کی باری آجائے گی جنھوں نے دھشت گرد گروھوں کی فوجی اور مالی امداد کے ذریعے شام اور عراق کو موجودہ صورتحال سے دوچار کیا ہے۔
سعودی حکام اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اگر آج عراق سے تکفیری دھشت گردی کی لعنت کا مکمل خاتمہ ھو جاتا ہے تو عراق اپنے پاوں پر کھڑا ھونے میں کامیاب ھو جائے گا اور عراقی معاشرے میں قومی اور مذھبی فرقہ واریت کا زمینہ ختم ھو جائے گا جو سعودی حکومت کے ھاتھ میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کیلئے ایک اھم ھتھکنڈہ ہے۔ لھذا آل سعود رژیم کی جانب سے انتھائی جلدبازی میں عراق میں سفارتی واپسی اور خود کو اھلسنت عراقی شھریوں کا نجات دھندہ ظاھر کرنے کی اصلی وجہ عراق کو ایران اور اسلامی مزاحمتی بلاک سے دور کرنا ہے۔ لیکن آل سعود رژیم کی یہ آرزو ھرگز پوری نھیں ھو گی۔
عراقی وزیراعظم حیدر العبادی اور وزیر خارجہ ابراھیم جعفری نے سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کو واضح انداز میں سمجھا دیا ہے کہ وہ ملک میں سعودی حمایت یافتہ تکفیری – وھابی دھشت گرد عناصر کا مکمل خاتمہ چاھتے ہیں اور بھت جلد ان کا مکمل خاتمہ کر کے ھی دم لیں گے۔
تحریر: ھادی محمدی

Add comment


Security code
Refresh