www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

138125
یمن کے خلاف سعودی جارحیت اور عام شھریوں کو ھوائی حملوں کا نشانہ بنانے کی وضاحت کیسے کی جا سکتی ہے؟ ماضی میں خاص طور پر جمال عبدالناصر کے زمانے میں جب عرب سوشل نیشنل ازم اپنے عروج پر تھا تو یمن سعودی عرب کیلئے ایک خطرہ تصور کیا جاتا تھا۔ لھذا سعودی حکام اس خطرے سے بچنے کیلئے یمن کے خلاف فوجی جارحیت کرتے رھتے تھے۔ لیکن یمن کے خلاف سعودی عرب کی حالیہ فوجی جارحیت اس کی قومی سلامتی کو درپیش خطرات کے زمرے میں نھیں آتی۔ کیونکہ اس وقت نہ تو مصر ماضی جیسا طاقتور ہے اور نہ ھی جنرل قذافی یا صدام حسین موجود ہیں جو یمنیوں کو سعودیوں کے خلاف اکسانا چاھیں گے۔ پس یمن کے خلاف سعودی عرب کی موجودہ فوجی جارحیت کی وجہ کیا ہے؟
یہ مسئلہ مزید واضح ھونے کیلئے اسلامی جمھوریہ ایران کے وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد ظریف کی جانب سے حال ھی میں بیان کردہ ایک واقعے پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر ظریف کھتے ہیں: "جب میں نے وزیر خارجہ کا عھدہ سنبھالا تو سعودی وزیر خارجہ سعود الفیصل کو پیشکش کی کہ ان سے یمن، بحرین، عراق، شام اور لبنان کے بارے میں مذاکرات کیلئے تیار ہیں۔ میں نے اپنے پیغام میں حتی یہ پیشکش بھی کی کہ اگر وہ چاھیں تو جنرل قاسم سلیمانی سے بھی براہ راست بات چیت کر سکتے ہیں۔
لیکن سعود الفیصل نے جواب دیا کہ عرب دنیا ھماری ملکیت ہے اور اس کا آپ سے کوئی تعلق نھیں۔" اب ان پر واضح ھو چکا ھو گا کہ عرب دنیا کا ایران سے تعلق ہے یا نھیں۔ شام اور یمن میں سعودی حکام شکست کا شکار ھوئے ہیں۔
انھوں نے لبنان کے وزیراعظم کو سعودی عرب بلا کر یرغمال بنا لیا لیکن کوئی فائدہ نھیں ھوا۔ درحقیقت گذشتہ عشرے میں سعودی عرب نے اپنی خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلی لاتے ھوئے جارحانہ اور تسلط پسندانہ پالیسیاں اختیار کی ہیں۔ سعودی عرب خود کو عرب دنیا کا مالک تصور کرتا ہے۔ یہ وھی آرزو ہے جو اس سے پھلے مصر کے صدر جمال عبدالناصر کے دل میں تھی اور کچھ عرصہ تک صدام حسین بھی اس کا شکار رھے۔
سعودی حکمرانوں نے اپنی جارحانہ پالیسیوں کا آغاز اپنے ھمسایہ ممالک سے کیا۔ یمن کے خلاف فوجی جارحیت کا آغاز کر دیا، قطر کے خلاف شدید نفسیاتی اور اقتصادی جنگ شروع کر دی، اس کے بعد مصر کا رخ کیا اور وھاں پیسے کے زور پر فوجی بغاوت کروائی اور حتی مصر کے بعض جزیروں پر بھی قبضہ کر لیا۔
شام میں تکفیری دھشت گردی کو فروغ دیا اور لبنان کے اندرونی مسائل میں مداخلت کرنا شروع کر دی۔ ان تمام محاذوں پر سعودی عرب کو بھاری اخراجات کرنے کے باوجود ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ مزید برآں، امریکہ نے بھی سعودی حکمرانوں کو خوب دوھا۔
سعود الفیصل 40 سال تک سعودی عرب کے وزیر خارجہ رھے ہیں۔ دنیا میں بھت کم افراد ایسے ہیں جو اتنے طویل عرصے تک یہ ذمہ داری ادا کرتے رھے ہیں۔ وہ انتھائی تجربہ کار تھے۔ جب سعودی حکمرانوں میں اس قدر تجربہ کار شخص اتنی سطحی سوچ کا مالک تھا کہ عرب دنیا کو اپنی ذاتی ملکیت تصور کرتا تھا تو شھزادہ محمد بن سلمان جیسے ناتجربہ کار جوان سے کیا توقع کی جا سکتی ہے؟
اصل مسئلہ یہ ہے کہ عرب دنیا ایک خیالی حقیقت کا نام ہے۔ خود عربوں کے ھاتھوں قتل ھونے والے عرب باشندوں کی تعداد ان سے دسیوں بلکہ سینکڑوں برابر زیادہ ہے جو اسرائیل کے ھاتھوں مارے گئے ہیں۔ اس وقت بھی یمن اور شام میں سعودی حکمرانوں اور ان کے حمایت یافتہ دھشت گرد عناصر کے ھاتھوں قتل ھونے والے عام افراد کی تعداد اسرائیل کی جانب سے شھید کئے گئے فلسطینی شھریوں کی تعداد سے کئی گنا زیادہ ہے۔
دنیا کے غریب ترین اور امیر ترین ملک عرب دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ شراب کے پیالے سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک کے نصیب میں آئے ہیں جبکہ خون کے پیالے یمن، سوڈان، صومالیہ اور شام جیسے ممالک کے حصے میں آئے ہیں۔
سعود الفیصل اور اس کے بعد والے سعودی حکمرانوں کی غلطی یہ ہے کہ وہ تصور کرتے ہیں دیگر ممالک اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے ان کی اجازت کا انتظار کریں گے۔ وہ اس وھم کا شکار تھے کہ امریکہ کے جدید ترین جنگی طیاروں کی مدد سے ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں یمن پر قبضہ کر کے صنعا جا کر اپنے مطلوبہ افراد کو مسند اقتدار پر بٹھا سکتے ہیں۔ لیکن یہ ان کی شدید غلط فھمی ثابت ھوئی ہے۔
تحریر: سید ابراھیم

Add comment


Security code
Refresh