ایران کے شھر مقدس قم میں ھندوستانی علماء و طلاب کرام نے شھریت ترمیمی قانون کے خلاف اور ھندوستان کے مختلف یونیورسٹی کے طلاب پر ظلم و بربریت کے ساتھ پولیس ایکشن کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے ۔
۱۶ دسمبر ۲۰۱۹ کو تحفظ آئین ھند کے عنوان سے ایران کے شھر قم المقدسہ میں ھندوستان کی تمام تنظیموں کے جانب سے ایک احتجاجی جلسہ منعقد ھوا جس میں کثیرتعداد میں علماء و طلاب کرام نے شرکت کی اور مختلف مقررین نے تقریریں کیں اور جلسہ کے آخر میں دس نکاتی کا ایک میمورنڈم پیش کیا گیا ۔
ھندوستان کے مختلف علاقوں اور مختلف صوبوں سے تعلق رکھنے والے طلاب کرام اس احتجاجی جلسے میں اس لئے جمع ھوئے کہ وہ اپنےوطن عزیز سے محبت کرتے ہیں ،اس کے آئین سے ھمیں پیار ہے اس کی مٹی میں ھمارے بزرگوں کی یادیں وابستہ ہیں ،ھم اس سرزمین پر پھلے پھولے اور اسی کی خاک میں سو جائیں گے ھم رھیں نہ رھیں یہ ملک رھے گا اور ھمیشہ گنگا جمنی تھذیب سے پھچانا جائے گا ،افسوس کے کچھ خاص نظریہ کے حامل افراد مسلسل ملک کی سالمیت کے خلاف سازشیں رچ رھے ہیں اور اس ملک کو ٹکڑے ٹکرے کر دینے کے در پے ہیں جس کی بقا و سالمیت کے لئے ھمارے بزرگ پھانسی کے پھندوں میں جھول گئے لیکن انھوں نے غیروں کی غلامی کو قبول نھیں کیا افسوس آج حالات ایسےھو گئے ہیں کہ ایک غلامانہ سوچ سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بعد ملک ایک دوسرے طرز کی غلامانہ سوچ کو اختیار کرتا جا رھا ہے اورواضح طور پر کھا جا رھا ہے کہ جب اسرائیل اپنے تحفظ کے لئے جو کچھ ضروری ہے انجام دے سکتا ہے تو ھم کیوں نھیں کیا یہ غلامانہ سوچ نھیں ہے ان حالات میں ھم تمام محبان وطن خاص کر ملک کے تمام مستضعفین کے ساتھ یکجھتی کا اظھار کرتے ھوئے ان تمام افراد کی شدید مذمت کرتے ہیں جو ملک کو ھوس اقتدار کی آگ میں جلا کر تباہ کرناچاھتے ہیں ۔
ھندوستانی وزیر داخلہ کی جانب سے پیش کئے گئے شھریت کے ترمیمی بل کو ھندوستان کے آئین کی دفعہ ۱۴ اور ۱۵ کے خلاف سمجھتے ھوئے اس قانون کی سخت مذمت کرتے ہیں جو ھمارےآئین کی روح کی پامالی کا سبب ہے ۔
شھریت کا حالیہ ترمیمی بل نہ صرف واضح طور پر بنیادی آئین کی اس شق کے خلاف ہے جس میں صراحت کے ساتھ کھاگیا ہے کہ ملک میں کسی بھی شھری کے ساتھ رنگ ونسل اور مذھب کی بنیاد پر کسی طرح کی تفریق نھیں کی جائے گی اور ھر شھری کے ساتھ یکساں سلوک ھو گا جبکہ اس بل کی بنیاد ھی مذھب کے اوپر ہے لھذا ھم اس بل کی مخالفت اپنا آئینی اور انسانی حق جانتے ھوئےصاحبان اقتدارسے اسے منسوخ کرنے کی پرزور مانگ کرتے ہیں ۔
ھندوستان کے آئین کی دفعہ 13میں یہ بات واضح طور پر موجود ہے کہ کہ اگر کوئی قانون بنیادی حقوق سے ٹکراتا ہے تو اس کی کوئی اھمیت نھیں ھوگی یعنی اگرآئین میں کسی طرح کی ترمیم ھوتی ہے یا قانون سازی کی جاتی ہے اور وہ بنیادی حقوق سے متصادم ھوتا ہے تو اس کو تسلیم نھیں کیا جائے گا جبکہ شھریت ترمیمی بل شھریوں کے بنیادی حقوق پر بھی کاری ضرب لگاتا ہے اس لحاظ سے یہ قابل قبول نھیں ہے ۔
ھندوستان کے درجہ اول کے شھری صدر جمھوریہ مملکت سے درخواست کرتے ہیں کہ جس بل پر انھوں نے دستخط کئے ہیں وہ ھمیشہ کے لئے تاریخ میں محفوظ ھو جائے گا اس کے بنیادی آئین کے خلاف ھونے کے ساتھ ساتھ مھاتما گاندھی اور امبیڈکر صاحب کے ترسیم کردہ ملکی خطوط کےبرخلاف ھونے کے باوجود ھندوستان جیسی عظیم جمھوریت کے صدر کی جانب سے اسے منظوری کادیا جانا تاریخ کا حصہ بن جائے گا لھذا وہ خود ذاتی طو رپر ملک میں اس بل کے بعد پائی جانےوالی بے چینی کو دیکھتے ھوئے اس پر نظر ثانی کریں اور اس ملک کو پھر انھیں گاندھی جی کےاصولوں کے دھارے پر گامزن کر دیں جن پر چل کر دنیا میں اس ملک کو ایک منفرد مقام حاصل ھواہے۔
ھندوستانی عدلیہ سے پر زور مطالبہ ہے کہ بنیادی دستور العمل کے خلاف ھونے کی بنیاد پراس بل پر فوری طور پر روک لگائے تاکہ ھندوستان کی عدلیہ کی مستقل ساکھ پر کوئی حرف نہ آئے ۔
ھندوستان کی عدلیہ سے ھماری درخواست ہے شھریت بل کی مخالفت میں ھر کھلنے والے زبان کوتحفظ فراھم کیا جائے اس لئے کہ جو بھی اس کے خلاف بول رھا ہے وہ اس کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرتے ھوئے نھیں بول رھا ہے بلکہ اس کے آئین ھند کے خلاف ھونے کی بنیاد پر بول رھا ہے اور یہ وہ آزادی ہے جسے بنیادی دستور میں تسلیم کیا ہے اور ھندوستانی آئین کی دفعہ ۱۹ کے تحت جھاں پر آزادی کے چھ اقسام کو ذکر کیا گیا ہے وھاں واضح طو پر اظھار رائے کی آزادی اور بغیر اسلحےکے اجتماع کی آزادی کی قانونی حیثیت کو مانا گیا ہے لیکن افسوس کا مقام ہے لاقانونیت اتنی بڑھ گئی ہے کہ اب ان لوگوں پر حملے کئے جا رھے ہیں جو اپنی زبان کھول رھے ہیں اور ان لوگوں کواحتجاج کی اجازت نھیں دی جا رھی ہےجو آئین ھند کے تحفظ کی خاطر اپنی آواز لوگوں تک پھنچاناچاھتے ہیں ، ایسے میں عدلیہ سے گزارش ہے وہ ھمیشہ کی طرح قانون کی بالا دستی کی خاطراظھار رائے کہ ساتھ بغیر اسلحے کے اجتماع کے تحفظ کو یقینی بنائے ۔
کل انگریزوں نے اس ملک کے اصلی باشندوں کے ھاتھ اوپر کرا کے ان کی پریڈ کرائی تھی اورآج آزاد ملک کی آزاد پولیس نے وھی کام اپنے ھی مستبقل کے سرمایہ یعنی طلباء کے ساتھ کیا اور ان کے ھاتھ مجرموں کی طرح اوپر کروا دئے بالکل ویسے ھی جیسے کل انگریزوں نے آزاد ھندوستانیوں کے کرائے تھے بس فرق اتنا ہے کہ کل انگریز گھروں میں بلا اجازت گھس جاتے تھے آج کے نام نھاد ھندوستانی قانون کے رکھوالے تعلیمی اداروں میں گھس رھے ہیں،دھلی کی جامعہ ملیہ ،علی گڑھ اور دوسری یونیورسٹیوں کا واقعہ ایک بار پھر یہ بتا رھا ہے کہ ھندوستان کس سمت جا رھا ہے ھم طلاب ھندوستان دھلی کے جامعہ ملیہ ، علی گڑھ اور دوسری یونیورسٹیوں میں ھونے والی پولیس کی بربریت کا شکار ھونے والے طلبا ء کے ساتھ اظھار ھمدردی کرتے ھوئے یونیورسٹی کیمپس میں بلا اجازت پولیس کے داخلے کی شدید طور پر مذمت کرتے ہیں اورھندوستانی عدلیہ سے درخواست کرتے ہیں کہ جلد از جلد بغیر انتطامیہ کی اجازت لئے اندر داخل ھونے والے پولیس اھلکاروں کی تفتیش کی جائے اور قانون کوتوڑنے کے جرم میں انھیں سخت سےسخت سزا دی جائے ۔
جامعہ ملیہ یونیورسٹی ، علی گڑھ اور دوسری یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے طلباء ھندوستان کا مستقبل ہیں اور افسوس کا مقام ہے کہ قانون کے رکھوالوں نے اپنے ھی مستقبل کے سرمایہ کو تاراج کرنے کے لئے وہ سب کچھ کیا جو وہ کر سکتے ہیں ، بلا اجازت یونیورسٹی میں در آنا، طلبا کا پیچھا کرتے ھوئے انھیں ھراساں کرنا ان پرلاٹھی ڈنڈے اور گولیاں برسانا ، آنسو گیس کے گولے چھوڑنا یہ یہ تاناشاھی وطیرہ ہے یا جمھوری ملک کی میراث؟ ھم اس واقعہ پر شدید برھمی کا اظھار کرتے ہیں اور اس واقعہ کی بے طرفانہ چانج کا مطالبہ کرتے ھوئے مجرموں کو کڑی سے کڑی سزا دئے جانے کی مانگ کرتے ہیں۔
ھم مکتب اھلبیت اطھار علیھم السلام سے وابستہ ھونے کے ناطے تمام دوست داران اھلبیت اطھارعلیھم السلام سے بالخصوص اور تمام ھی حریت پسندوں سے بالعموم درخواست کرتے ہیں کہ اس قانون کے خلاف ھونے والے احتجاجی مظاھروں سے ھر ممکنہ تعاون کیا جائے کہ حق کی حمایت مظلوم کا ساتھ مکتب اھلبیت اطھار علیھم السلام کی تعلیمات کا بنیادی رکن ہے ،اور اسی بنیاد پر ھم ھندوستان میں اپنی قیادت سے بھی پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے ماضی کو دیکھیں اور اس کے آئینے میں حال کی تصویر کو دیکھیں ھمارا کل وہ ہے جھاں ھم نے کربلا رقم کی ہے کل وہ ہے جھاں سر کٹا کےبھی ھم سر بلند ھوئے ہیں کتنے افسوس کا مقام ہے کہ کربلا جیسا درخشان کل ھونے کے باوجود ھم آج خاموش تماشائی بنے رہیں ھرگز ایسا نھیں ھو سکتا ہے لھذا ھم اپنے تمام بزرگان ملت ، عمائدین قوم اور دانشوران ملت سے پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ ھرگز حسینیت کی ڈگر سے پیچھے نہ ھٹیں کہ حسینیت کا امتیاز بھی یھی ہے کہ تعداد میں کم ھوتے ھوئے بھی حسینیوں نے ظلم کو برداشت نھیں کیا ہے ،لھذا اٹھیں ایک بار پھر اٹھیں عزم زینیبی لیکر اٹھیں فکر حسینی لے کر اٹھیں اور دنیا کو بتا دیں ھمارا تعلق اس مکتب سے ہے جھاں سروں کو کاٹا تو جا سکتا ہے جھکایا نھیں جا سکتا ، جھاں سرکٹنے کے بعد بھی نوک نیزہ پر بلند ھو کر ایک ھی نعرہ لگاتا ہے ھیات منا الذلہ ۔۔۔